Feb ۲۹, ۲۰۱۶ ۱۶:۰۵ Asia/Tehran
  • انسانی حقوق کونسل کی اپنی ذمے داریوں سے غفلت

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی موجودگی میں پیر کے دن انسانی حقوق کی سلامتی کونسل کا جنیوا میں سالانہ اجلاس ہو رہا ہے۔

یہ اجلاس ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ جب دنیا میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کی افسوسناک خلاف ورزی کی ایک مثال یمن میں سعودی عرب کے مظالم ہیں جو مسلسل جاری ہیں۔

سعودی جارحین نے یمن میں اپنے مظالم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے صنعا کے قریب ایک بازار پر فضائی حملہ کیا ہے ۔ جس میں دسیوں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ یمن کے انسانی حقوق کے مرکز نے حال ہی میں گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران سعودی عرب کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ مارچ سنہ دو ہزار پندرہ سے جنوری سنہ دو ہزار سولہ تک ان حملوں کے دوران آٹھ ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوئے ہیں جن میں سے دو سو چھتیس بچے اور سات سو باون خواتین تھیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جنیوا اجلاس کے موقع پر ایک بیان جاری کر کے سعودی عرب کو ہتھیار دیئے جانے کا سلسلے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ ان ہتھیاروں کو جنگی جرائم میں آسانی پیدا کرنے یا انسانی حقوق کی مختلف طرح سے خلاف ورزی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سنہ دو ہزار پندرہ میں پچیس ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار سعودی عرب کے ہاتھ فروخت کئے گئے۔

برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم اوکسفام (Oxfam) کے اسلحہ کے امور کے انچارج انا مک ڈونلڈ نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ "برطانیہ اور فرانس جیسی حکومتیں سعودی عرب کو انتہائی تباہ کن ہتھیاروں سے مسلح کر کے ان معاہدوں کی کمزوری کا باعث بن رہی ہیں جو انسانیت کے رنج و الم میں کمی لانے کے لئے کئے گئے ہیں اور یہ کام واقعی گھناؤنا ہے"

دنیا کے دوسرے حصے میں بھی یورپ کی سرحدوں پر پھنسے ہوئے ہزاروں افراد اور تارکین وطن کو بعض یورپی حکومتوں کے غیر منصفانہ اور یکطرفہ اقدامات کے نتیجے میں بہت زیادہ مشکلات اور موت کے خطرے کا سامنا ہے۔ ان افراد نے یورپ والوں کی بھڑکائی ہوئی جنگ سے جان بچانے کے لئے ہی یورپ کا رخ کیا ہے۔

مشرق وسطی میں دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کی حمایت کرنے والی صیہونی حکومت بھی روزانہ فلسطینیوں پر اپنے مظالم میں شدت پیدا کرتی جا رہی ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ہی دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی دعویدار یورپی تنظیمیں صیہونیوں کے مظالم کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام انجام نہیں دے رہی ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب امریکہ ایٹمی ہتھیاروں سمیت مختلف طرح کے ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے ذریعے مجرم اور ظالم اسرائیلی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے درپے ہے۔ اور اس نے اس پالیسی کا بارہا دفاع کیا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے دعویدار یہی یورپی ممالک ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں اور انہوں نے ایران کے لئے انسانی حقوق کا ایک خصوصی رپورٹر بھی مقرر کر رکھا ہے۔ یہ ممالک ایران میں منشیات کے اسمگلروں کو سزائے موت دیئےجانے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ منشیات معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب انسانی حقوق سے متعلق یورپ اور امریکہ کا نامہ اعمال نسل پرستانہ اور غیر انسانی اقدامات منجملہ گوانتانامو جیل، ابوغریب جیل، یورپ میں خفیہ جیلوں اور کینیڈا میں اس ملک کے اصل باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک وغیرہ سے پر ہے۔ اس سیاہ کارنامے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپ میں انسانی حقوق کا دعوی ایک کھوکھلا دعوی ہے جو بظاہر اقدار، پرکشش اور دلفریب نعروں مثلا آزادی ، جمہوریت اور اقوام کے دفاع کی بنیاد پر استوار ہے لیکن یہ سب صرف نعروں کی حد تک ہے اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یورپ انسانی حقوق کو بھی ایک حربےکے طور پر استعمال کرتا ہے اور جب تک یہ دوغلا پن موجود رہے گا اس وقت تک انسانی حقوق اور دہشت گردی کے سلسلے میں پائے جانے والے تضادات کا خاتمہ نہیں ہوگا اور انسانی حقوق کونسل کی حقیقی ذمےداریوں کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا۔

ٹیگس