افغانستان میں نئے وزیرداخلہ کے نام کا اعلان
افغانستان کی وزارت داخلہ کے عہدے سے نورالحق علومی کے سبکدوش ہونے کے بعد اس ملک کے صدر محمد اشرف غنی نے نگراں وزیر داخلہ کا اعلان کر دیا۔
افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے اپنے ملک کے نئے وزیر داخلہ کی حیثیت سے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے جنرل تاج محمد جاہد کا نام پیش کرتے ہوئے انھیں نگراں وزیر داخلہ مقرر کر دیا۔ افغانستان کے نائب صدر سرور دانش نے ہفتے کے روز جنرل جاہد کو افغانستان کے نگراں وزیر داخلہ کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ تعارفی جلسہ میں انھوں نے اسی طرح افغانستان کے داخلہ سیکریٹری کی حیثیت سے ایوب سالنگی کے متبادل کے طور پرعبد الرحمان رحمان کو متعارف کرایا۔ اس سے قبل جنرل تاج محمد جاہد، مغربی افغانستان میں ظفر، دو سو سات فوجی ڈویژن کے کمانڈر تھے اور وہ گذشتہ تقریبا بائیس برسوں کے دوران افغانستان کے مختلف فوجی شعبوں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑھتے ہوئے بحران و بدامنی کے بعد اس ملک کے وزیر داخلہ نورالحق علومی نے استعفی دے دیا جسے افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے منظور کرلیا۔ افغانستان کے مختلف جہادی و سیاسی گروہ، ان پر ملک کے سیکورٹی امور چلانے میں ناتوانی کا الزام لگا رہے تھے اس لئے کہ طالبان گروہ نے حال ہی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور اس نے بعض دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں افغانستان کی وزارت دفاع پر بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزارت دفاع کے عہدے پر اب تک کسی کا بھی انتخاب نہ کیا جانا اس بات کا باعث بنا ہے کہ مسلح مخالف اور دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز میں ضروری ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے مختلف سیاسی حلقوں نے اپنے ملک کے صدر محمد اشرف غنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے جلد سے جلد وزیر دفاع کا نام پارلیمنٹ میں پیش کریں۔ ایسی صورت حال میں یہ سیاسی حلقے، افغانستان کے امن و امان کے تحفظ اور اپنے فرائص کی انجام دہی میں نئے وزیر داخلہ کے موثر واقع ہونے کے بارے میں شک و شبہے کا بھی اظہار کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وزارت داخلہ، صرف اپنے بل بوتے پر امن برقرار کرنے کی توانائی نہیں رکھتی اور اس وزارت خانے کو وزارت دفاع کے ساتھ مکمل ہم آہنگی سے مسلح مخالف اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا چاہئے۔
اس نقطۂ نظر سے افغانستان کی متحدہ قومی حکومت، ضروری ہم آہنگی اور وزرائے داخلہ اور دفاع کے نام پیش کر کے اپنے ملک میں امن کے تحفظ کے لئے سیکورٹی اداروں میں ہم آہنگی کے قیام میں مدد کر سکتی ہے۔ افغانستان میں ایسی حالت میں ان دو اہم عہدوں پر اب تک کسی کا انتخاب عمل میں نہیں آیا ہے کہ افغان حکام کے مطابق ان کے ملک کی حکومت، پاکستان میں طالبان گروہ کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کرنے کے لئے خود کو آمادہ بھی کر رہی ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کے ممکنہ فیصلے کے لئے محمد اشرف غنی کی کابینہ کا مکمل ہونا ایک اہم اور ضروری اقدام سمجھا جاتا ہے۔ بعض حلقے یہ خیال رکھتے ہیں کہ حکومت افغانستان کے مخالف مسلح گروہ، فوجی و سیکورٹی امور میں پائی جانے والی عدم ہم آہنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہ مسئلہ اس بات کا موجب بنا ہے کہ طالبان گروہ، اس بات کا دعوی کرے کہ اس نے حالیہ حملوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
بہرحال سیاسی مبصرین کی نظر میں افغانستان کی متحدہ قومی حکومت، اس وقت بہت حساس دور سے گذر رہی ہے اور اس ملک کے مختلف حلقے اور عوام، اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت، حالات کا ادراک کرتے اور سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے فوری طور پر وزرائے داخلہ اور دفاع کے انتخاب اور ان کے نام پیش کرے گی تاکہ افغان عوام میں اعتماد پیدا کرتے ہوئے ان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں مخالفین کو ماضی سے کہیں زیادہ مایوس کیا جاسکے۔