ولادیمیر پوتن کی جانب سے شام سے روسی افواج کے انخلا کا حکم
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے پیر کے روز شام سے روسی فوجیوں کے انخلا کا حکم جاری کر دیا۔
ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ شام میں روس کی فوجی مداخلت کے مقاصد کافی حد تک پورے ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کرملن ہاؤس میں روس کے وزرائے دفاع اور خارجہ کے ساتھ ہونے والی مشترکہ نشست میں اس بات پر زور دیا کہ شام سے روسی فوجیوں کا انخلا منگل کے روز سے شروع ہو جائے گا۔ انھوں نے اسی کے ساتھ حکم دیا کہ شام میں جھڑپوں کے خاتمے کے لیے شام کے امن مذاکرات میں روس کا کردار بڑھایا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ روسی فوج کے کچھ دستے بندر طرطوس میں باقی رہیں گے تاکہ شام میں امن عمل مکمل ہونے کا اطمینان حاصل ہو جائے۔ روسی صدر نے امید ظاہر کی کہ یہ فیصلہ بحران شام کے تمام متحارب فریقوں کے لیے اچھے پیغام کا حامل ہو گا اور اس بات میں مدد دے گا کہ متحارب فریق اعتماد سازی کے ذریعے بحران شام کو پرامن طریقے سے حل کر سکیں۔ ولادیمیر پوتن نے شام کے صدر بشار اسد سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں اس فیصلے سے مطلع کیا۔ بشار اسد نے اس موقع پر شام میں روس کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جنیوا امن مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض ذرائع ابلاغ اور مغربی ماہرین نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ روس کا یہ اقدام شام کی قانونی حکومت کی حمایت کے سلسلے میں روس کی ایک قسم کی پسپائی ہے اور حتی ان میں سے بعض نے اسے ماسکو کے غیرمتوقع اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن اس کے مقابل شامی حکام نے اس پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے ماسکو اور دمشق کے تعاون پر زور دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شام سے اپنی فوج کے ایک بڑے حصے کے انخلا کے روسی فیصلے کا حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں جائزہ لینا چاہیے۔ ان میں سے ایک اہم ترین تبدیلی اور واقعہ کہ جس نے شام کے حالات پر اثر ڈالا ہے، شام کے بارے میں امریکہ اور روس کے مذاکرات اور پھر جنگ بندی کے اعلان کے بارے میں دونوں کا اتفاق رائے اور بعد کے مرحلے میں شام میں انتقال اقتدار کے عمل کے بارے میں اتفاق رائے کے حصول کے لیے سیاسی مذاکرات کا آغاز ہے۔ ان مذاکرات کو کہ جو پیر کے روز سے جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں شروع ہوئے ہیں، امریکہ اور روس کی بھرپور حمایت حاصل ہے کہ جو بظاہر شام میں جنگ کے خاتمے کے بارے میں اتفاق رائے تک پہنچ گئے ہیں۔
درایں اثنا جنیوا میں شام کے مذاکراتی وفد کے سربراہ بشار الجعفری نے ان مذاکرات کی دو اہم رکاوٹوں یعنی جنیوا مذاکرات میں ایک واضح ایجنڈے کے فقدان اور شامی حکومت کے مخالف مذاکراتی وفد میں شامل افراد کے واضح و معین نہ ہونے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب مغربی ممالک، ان کے عرب اتحادیوں اور ترکی نے کئی بار شام میں روس کی فوجی مداخلت کو بحران شام کے سیاسی حل کے عمل میں ناکامی کا باعث قرار دیا ہے اور روسی فوجیوں کے شام سے انخلا پر زور دیا ہے۔ اس وقت روس شام سے اپنے فوجی نکال کر، مغربی ملکوں کے بہانوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ شامی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان سنجیدہ مذاکرات شروع ہونے کا راستہ ہموار کرنا چاہتا ہے کہ جن میں یقینا دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کو کچھ مراعات دینا پڑیں گی۔ اس سلسلے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض مغربی تجزیہ نگار اس بات کا دعوی کر رہے ہیں کہ شام سے روسی فوجیوں کا انخلا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بحران شام کو ختم کرنے کے سلسلے میں روس اور امریکہ کے درمیان خفیہ معاہدہ طے پا چکا ہے۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ شام میں روسی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کے انخلا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شام میں روس کی فوجی کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ روس اور امریکہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کریں گے۔ اس اتفاق رائے کے مطابق یہ طے پایا ہے کہ روسی فوجی پالمیرا شہر کو آزاد کرائیں گے اور دوسری جانب دونوں ممالک کے فوجی صوبہ رقہ کو داعش کے قبضے سے چھڑائیں گے۔ اس طرح شام سے روسی فوجیوں کے انخلا کو جنیوا مذاکرات میں نئی روح پھونکنے اور بحران شام کو ختم کرنے کے بارے میں مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کے بہانے کو ختم کرنے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔