Apr ۲۰, ۲۰۱۶ ۱۸:۲۸ Asia/Tehran
  • خلیج فارس تعاون کونسل کی امریکہ سے توقعات

سعودی عرب کے وزیر دفاع اور ولیعہد کے جانشین محمد بن سلمان نے ریاض میں امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر کے ساتھ ملاقات میں ایران سمیت مختلف مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

حالیہ دنوں میں امریکی حکام کے خطے کے دوروں میں تیزی آئی ہے اور یہ دورے چند مقاصد کے تحت انجام پا رہے ہیں۔ بعض حلقے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہوں کے ساتھ جمعرات کے دن باراک اوباما کے اجلاس سے فریقین کے تعلقات مشارکت کی سطح سے مختلف شعبوں میں اسٹریٹیجک اتحاد کی سطح تک پہنچ جائیں گے۔ یہی ریاض میں امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر کے اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کےایجنڈے کا اصل موضوع ہے۔

ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ علاقائی صورتحال کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور بظاہر اس سے دو مکمل طور پر جداگانہ اور متضاد مفادات کے مجموعوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اسی تناظر میں ایران کا ایٹمی معاہدہ ایران کے مخالفین کے نزدیک ایک برا معاہدہ ہے جو علاقائی سلامتی کے لئے خطرہ شمار ہوتا ہے۔ اسی زاویہ نگاہ کی وجہ سے تقریبا ایک سال سے ریاض اور واشنگٹن بظاہر ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے آگئے ہیں۔ لیکن واشنگٹن نے ہمیشہ اپنے روایتی اتحادیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ کبھی بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس کا نقصان خطے میں اس کے اتحادیوں کو پہنچے ۔

ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدے پر دستخط سے قبل باراک اوباما کی جانب سے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہوں کو امریکہ کی دعوت اور کیمپ ڈیوڈ میں ان کے ساتھ اجلاس بلائے جانے کا محرک یہی تھا۔ لیکن بظاہر تشویشیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی اسٹریٹیجک پالیسی ایران مخالف اقدامات میں شدت لانے پر استوار ہے جو ترکی کے شہر استنبول میں ایک ہفتہ قبل ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں کھل کر سامنے آئی۔

امریکہ نے اب تک سفارت کاری کے ذریعے واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کی بدگمانی کو خوش فہمی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت اب نہیں چاہتی ہے کہ شام اور یمن کی صورتحال سے لے کر تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر مشتمل سعودی عرب کی انتہا پسندی کا دائرہ مزید پھیلے اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہوں۔

بعض مبصرین کا خیال ہےکہ گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک کے واقعات میں ملوث ہونے کی بنا پرسعودی عرب کی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کے حق سے متعلق امریکی کانگریس کی تجویز کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آگئی ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعات میں ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے والے انیس میں سے پندرہ سعودی عرب کے شہری تھے۔ لیکن اب پندرہ برس کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔

بعض افراد کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدے کی وجہ سے اب امریکہ کو ایک علاقائی دشمن کے مقابلے کے لئے سعودی عرب کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے تکفیری صیہونی دہشت گردوں کی حمایت نیز اس حقیقت کی وجہ سے کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند گروہ سعودی عرب کی دولت سے وجود میں آئے ہیں سعودی عرب امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے اتحادی میں تبدیل ہو گیا ہے۔

دریں اثنا سعودی عرب امریکہ سے ہتھیار خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور واشنگٹن اس صورتحال میں تبدیلی نہیں آنے دے گا۔

البتہ امریکہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے اراکین کے تعلقات کا انحصار اس بات پر ہے کہ واشنگٹن ان تعلقات کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرے۔

لیکن اس کے باوجود اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں امریکہ سعودی عرب کی توقعات کے مطابق اس کی حمایت کرے گا۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ باراک اوباما کے ناقدین امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کی غیر منطقی حمایتوں کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں۔ اس لئے سعودی عرب کے پاس واحد آپشن خطے اور خلیج فارس کے علاقے میں ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

ان حالات میں ایران کے مقابلے کے لئےدوسرے ممالک کو اپنے پیچھے لگانے پر مبنی سعودی عرب کی غیر منطقی اورانتہا پسندانہ پالیسی، کہ جو استنبول میں او آئی سی کےاجلاس میں کھل کر سامنے آئی، خطے کے ممالک حتی امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔

ٹیگس