Apr ۲۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۰۴ Asia/Tehran
  • اشرف غنی کے لئے افغان پارلمینٹ کی شرط

افغانستان کی قومی پارلمینٹ کے اسپیکر عبدالرؤوف ابراہیمی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی صورت میں طالبان کے خلاف جنگ پر مبنی صدر اشرف غنی کی اعلان کردہ پالیسی کی حمایت کریں گے کہ جب حکومت ، وزیر دفاع کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے پارلمینٹ میں پیش کرے اور قومی سلامتی کے ادارے کا سربراہ معین کرے-

ابراہیمی نے مزید کہا کہ افغانسان کی وزارت دفاع اور قومی سلامتی کا ادارہ نگراں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور اشرف غنی حکومت کی اس قانون شکنی کا کوئی جواز نہیں ہے-

افغانستان کے آئین کے مطابق کوئی بھی ادارہ دومہینے سے زیادہ عرصے تک نگراں کے ذریعے نہیں چلایا جانا چاہئے اور اس بنا پر افغانستان کی کابینہ مکمل نہ ہونے کے باعث اس ملک کی قومی پارلیمنٹ کے اسپیکر کی تنقید صدر اشرف غنی کو وزارت دفاع کے عہدے اور قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کو منصوب کرنے کی تشویق دلا سکتی ہے- افغانستان میں بدامنی کے باوجود اس ملک کی وزارت دفاع کا انتظام نگراں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے-

افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے گذشتہ منگل کو کابل میں طالبان کے حملے کے بعد اعلان کیا کہ طالبان کے ساتھ امن و صلح کے سلسلے میں ان کی حکومت کی ترجیح، طالبان کے ساتھ جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس سلسلے میں اقدام کے لئے وہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں-

اس کے باوجود سیاسی ماہرین کی نگاہ میں افغانستان کی قومی پارلمینٹ کی جانب سے قومی اتحاد کی حکومت کی حمایت کو مشروط کرنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کے بعض حکام کے اندر طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری عزم موجود نہیں ہے-

افغانستان کی قومی حکومت کے چیف ایگزیکیٹیو عبداللہ عبداللہ نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ طالبان نے جنگ کو چنا ہے اور اس ملک کی فوج بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے- افغان حکومت نے صدر حامد کرزئی کے دور میں اعلی امن کونسل تشکیل دے کر یہ کوشش کی کہ سیاسی، نسلی اور مذہبی گروہوں کی شراکت سے کسی بھی طرح طالبان کو حکومت کے ساتھ صلح کے لئے تیار کیا جائے - افغانستان کی قومی حکومت کے صدر محمد اشرف غنی نے بھی پاکستان کے لئے سرخ قالین بچھا کر افغانستان میں امن کے عمل کو آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش شروع کی اور اس کا جائزہ بھی لیا- ان کا خیال تھا کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر گذرتا ہے لیکن اس وقت افغانستان کو جس چیز کا سامنا ہے وہ طالبان کی جانب سے جنگ میں شدت ، اس گروہ میں تقسیم اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ کا وجود میں آنا ہے کہ جس نے افغانستان کی سیکورٹی کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر کر دی ہے- ایسا نظر آتا ہے کہ افغانستان کے صدر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان اپنے مد نظر مراعات حاصل کرنے سے پہلے ، طالبان کو افغان امن عمل میں شامل ہونے کی تشویق دلانے کی کوشش نہیں کرے گا-

اسی بنا پر انھوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ افغان امن کا طریقہ کار تیار کرنے کے لئے امریکہ ، افغانستان ، پاکستان اور چین کے نمائندوں کے چار دور کے مذاکرات لاحاصل رہے ہیں اور طالبان صرف جنگ چاہتے ہیں ، اپنی حکومت کی اسٹریٹیجی ، اس گروہ کے ساتھ امن و صلح کی کوشش کے بجائے جنگ بتائی ہے-

اگرچہ ایسا نظر آتا ہے کہ اسٹریٹیجی میں اس تبدیلی کا افغانستان کے مختلف حلقوں اور رائے عامہ کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن بعض حکام طالبان کے ساتھ جنگ کو ضروری نہیں سمجھتے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کو دھوکا دینے والے ان کے نعروں کے برخلاف افغانستان میں قومی سطح پر ضروری عزم موجود نہیں ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ تشدد پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے مقابلے کے لئے قومی اتفاق رائے اور اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان کے سیکورٹی ادارے اور فوج ، انتہاپسندوں اور دہشت گردوں سے سختی سے جنگ کر سکیں-

ٹیگس