Apr ۲۵, ۲۰۱۶ ۱۹:۵۳ Asia/Tehran
  • خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی

آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی فنڈ کے وسطی ایشیاء اور مشرق وسطی سے متعلق شعبے کے سربراہ مسعود احمد نے پچّیس اپریل کو ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ دو ہزار سولہ میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی اقتصادی ترقی کی شرح تین اعشاریہ تین فیصد سے گھٹ کر ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تک رہ جائے گی۔

انھوں نے کہا ہے کہ رواں سال میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی اور نتیجے میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کو تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کم سے کم سو ارب ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی، اقتصاد کو مختلف نوعیت کا بنانے کی پالیسی کی شکست اور ان ملکوں کی معیشت کا تیل کی آمدنی سے بہت زیادہ وابستہ ہونے کی ترجمان ہے۔

خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی معیشت کا انحصار، تیل کی آمدنی پر ہے۔ ان ملکوں نے اپنی اس وابستگی کو کم کرنے کے لئے تقریبا دو عشروں سے معیشت کو مختلف نوعیت کا حامل بنانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے سیاحت کے شعبے میں بے تحاشا اخراجات کئے ہیں۔ البتہ قطر نے تعلیم کے شعبے پر بھی کافی اخراجات کئے ہیں جن میں قطر میں ایسی یونیورسٹیوں کا قیام بھی شامل ہے کہ یورپ و امریکہ میں جن کا کافی نام ہے۔ تعمیر و ترقی بھی ایسا شعبہ ہے کہ جس میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں، خاص طور سے قطر اور متحدہ عرب امارات نے سرمایہ کاری کی ہے۔

متحدہ عرب امارات نے بینکنگ کے شعبے میں بھی کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی آنے کی پیش گوئی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان ممالک کی شاہی حکومتیں، معیشت کو مختلف نوعیت کا حامل بنانے کی پالیسی میں ناکام رہی ہیں اور اب بھی ان ممالک کی معیشت کا تیل کی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ البتہ جس چیز نے ان ممالک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے وہ، تیل کی قیمتوں میں شدید کمی ہے جیساکہ دو ہزار چودہ کے وسط سے اب تک تیل کی قیمتوں میں ستّر فیصد کمی آئی ہے جو اب جا کر  چالیس ڈالر پر پہنچی ہے۔

تیل کی قیمتوں میں کمی آنے کی اصل وجہ، خلیج فارس تعاون کونسل میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں کی پالیسی ہے۔ سعودی عرب نے علاقے کے اپنے حریف ملکوں خاص طور سے اسلامی جمہوریہ ایران کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے تیل کی قیمتیں گرانے کی پالیسی اختیار کی ہے اور اس سلسلے میں اسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں میں سعودی عرب کی معیشت ہی سب سے زیادہ تیل کی آمدنی سے وابستہ ہے۔ حالانکہ ونزوئیلا کے بعد سعودی عرب ہی دنیا میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر کا حامل ہے اور یہ ملک ہی سب سے زیادہ تیل برآمد کرتا ہے۔

تیل کی قیمتیں گرنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب کے زر مبادلہ کے ذخائر گذشتہ سال چھے ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے اور تیل کی قیمتوں میں آنے والی کمی سے اپنی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی روک تھام کرنے کے لئے اپنی قومی کمپنی آرامکو کے حصص فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی تیل کی آمدنی میں کمی نیز اس کی اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی آنے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟۔ تیل کی آمدنی میں کمی اس بات کا باعث بنی ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک نے گذشتہ مہینوں میں توانائی اور ایندھن پر سبسڈیز میں قابل ذکر حد تک کمی کر دی اور وہ بالواسطہ طور پر ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ان ممالک نے اسی طرح اپنے بڑے بڑے منصوبے روک دیئے یا ان کے اخراجات میں کمی کر دی ہے۔

بنابریں ان ممالک میں سبسڈیز میں کمی کئے جانے سے ایک جانب عوام میں برہمی بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری جانب بڑے بڑے منصوبوں کے اخراجات میں کمی کئے جانے سے خلیج فارس تعاون کونسل کے حکام کی اقتصادی جاہ طلبی کا بھی اب خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ٹیگس