اشرف غنی کے طالبان مخالف مواقف کی حمایت
افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے ٹھکانوں پر زمین اور فضا سے حملے کرنے پر تاکید کئے جانے کے بعد جنوبی افغانستان کے عوام نے اشرف غنی کے مواقف کی حمایت کی ہے۔
صوبہ ہلمند کےگورنر حیات اللہ نے اس صوبے کے بعض عہدیداروں اور عوام کے ایک گروہ کے ہمراہ اشرف غنی کے طالبان مخالف مواقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ ہلمند کے گورنر کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں صدر اشرف غنی کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ اپنے ملک میں قیام امن اور سیکورٹی کے خواہاں ہیں۔
افغان صدر نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں اپنے ملک کے علما سے اپیل کی کہ وہ طالبان کی صحیح راستے کی جانب رہنمائی کرتے ہوئےان کو گمراہی سے نجات دیں۔
اشرف غنی کا مزید کہنا تھا کہ کابل حکومت ان لوگوں کے ساتھ امن و آشتی کے لئے کوشاں ہے جو افغانستان کے آئین کو تسلیم اور دہشت گردی سے اپنا رشتہ ختم کرنے والے ہیں۔ اشرف غنی نے یہ بھی کہا کہ کابل حکومت ایسے گروہوں کا مقابلہ کرے گی جو حکومت کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔
افغانستان کےسیاسی حلقوں کے نزدیک اس ملک کے جنوبی علاقے کے لوگوں کی جانب سے طالبان کے مقابلے کے لئے اشرف غنی کے اعلان جنگ کی حمایت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور یہ حمایت افغانستان کی متحدہ حکومت کے لئے بہت اہم پشت پناہ قرار پاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کا تعلق پختون قوم سے ہے اور اشرف غنی بھی اسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنابریں جنوبی افغانستان کے لوگوں کی جانب سے اشرف غنی کی حمایت کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اب کے بعد طالبان کی حمایت نہیں کریں گے حالانکہ طالبان افغان حکومت کے خلاف جنگ میں انہی لوگوں سے حمایت حاصل ہونے کی توقع رکھتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افغانستان کےعوام کی جانب سے طالبان کے مقابلے کے لئے متحدہ قومی حکومت کی حمایت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پختونوں کے نزدیک طالبان ان کے نمائندے نہیں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پختونوں میں طالبان اپنا سماجی مقام کھو بیٹھیں گے۔ البتہ افغان عوام پر طالبان کے حملوں میں شدت پیدا ہونے اور عام شہریوں خصوصا خواتین اور بچوں کے قتل عام کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پختون قوم کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب طالبان اپنے گمان کے مطابق پختونوں کی حمایت کے ذریعے افغانستان میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوشاں تھے۔ لیکن اب انہوں نے جنگ اور تشدد آمیز اقدامات انجام دینے شروع کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے پختون قوم بھی ان سے بہت زیادہ غم و غصے میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اگرچہ طالبان جنگ کا دائرہ شمالی افغانستان تک پھیلا کر جنوبی علاقے میں جنگ میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس گروہ کے تشدد کا نشانہ پختون قوم ہی بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان اور بین الاقوامی سطح پر اس قوم کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
دریں اثنا افغان صدر محمد اشرف غنی نے طالبان کی رہنمائی کرنے کےسلسلے میں علما سے جو اپیل کی ہے وہ بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ طالبان اپنے آپ کو ایک نظریاتی گروہ سمجھتے ہیں اس لئے اشرف غنی کے نزدیک علما لوگوں کو حقائق سے آگاہ اور طالبان کے اہداف اور منصوبوں کی مخالفت کرنے کے ذریعے اس گروہ کے اراکین کو اپنے بھائیوں کے قتل سے روکنے کے سلسلے میں رہمنائی کر سکتے ہیں۔
بہرحال پختون قوم کی جانب سے افغان حکومت کی طالبان مخالف حکمت عملی کی حمایت کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ طالبان کی حمایت کا سلسلہ ختم کردے۔