روہنگیا کا لفظ استعمال نہ کیا جائے: آنگ سان سوچی
میانمار کی نئی حکومت کی اسلام مخالف خاص طور پر روہنگیا مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے حکمراں جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا لفظ کے استعمال کو بے جا قرار دیا ہے۔
آنگ سان سوچی نے کہا کہ میانمار کے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی اقلیت پر اطلاق کے لیے اس قسم کے لفظ کا استعمال مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔
قانونی تعبیر کے مطابق میانمار میں اس قسم کے لفظ کا استعمال قدرتی طور پر قانونی پہلو کا حامل ہو گا۔ اس لیے میانمار کی حکومت ایک حقیقت کو قبول کرنے اور اسی طرح اس پر مرتب ہونے والے حقوق کا خیال رکھنے کی پابند ہو گی۔
اس بنا پر میانمار کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کے مطابق آنگ سان سوچی بھی سابق فوجی حکمرانوں کی مانند اس ملک کی مسلمان اقلیت کو روہنگیا نہیں کہتی ہیں کیونکہ وہ ان کو میانمار کے شہری نہیں سمجھتی ہیں۔
آنگ سان سوچی نے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا ہے کہ حتی اگر کسی ملک یا غیرملکی عہدیدار نے روہنگیا لفظ استعمال کیا تو وہ اس پر ردعمل ظاہر کریں گی۔ اگرچہ ان کے ملک نے فوجی حکمرانوں کے دور میں مسلمانوں کے حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ آنگ سان سوچی کہ جو اپنی زندگی کی ساٹھ سے زائد بہاریں دیکھ چکی ہیں اور پندرہ سال سے زیادہ گھر پر نظربند رہی ہیں، اس دعوے سے کہ وہ اپنی پوری سیاسی جدوجہد کے دوران ہتھیاروں اور تشدد سے پاک جدوجہد کی قائل رہی ہیں، اس وقت تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہیں۔ وہ کسی بھی شخص سے زیادہ یہ بات جانتی ہیں کہ روہنگیا، میانمار میں قدیم زمانے سے رہنے والی مسلمان قوم ہے، یعنی میانمار کو انیس سو سینتالیس میں حاصل ہونے والی آزادی سے قبل بھی یہ قوم کارن، شان اور کاچین اقوام کے ساتھ اس ملک میں رہتی تھی۔
میانمار کی آزادی سے قبل اور برطانوی استعمار سے اس کی آزادی کے بعد بھی اعداد و شمار میں مسلمانوں کو دوسری اقوام کے ساتھ شمار کیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے اعداد و شمار پیش کرنے میں میانمار میں مسلمانوں کی تعداد کو ذکر کرتے تھے اور انھوں نے اپنے اعداد و شمار میں مسلمانوں کی آبادی سات فیصد تک بتائی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آنگ سان سوچی ایک تسلیم شدہ تاریخی حقیقت کو قبول کرنے سے کیوں گریز کر رہی ہیں اور وہ یہ قبول نہیں کرنا چاہتی ہیں کہ روہنگیا افراد بھی دیگر اقوام، مذاہب اور نسلوں کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی فائدوں سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔
اگر قومی یکجہتی کی بنیاد پر بھی ہو تو جیسا کہ ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ ایک محدود جغرافیہ کے اندر مختلف قوموں کا اکٹھا ہونا ایک قوم کے مستقبل کو روشن بنانے میں زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔
قومی یکجہتی میں قوم کا لفظ، لفظ ملت کے ذیل میں آتا ہے جبکہ آنگ سان سوچی کی پارٹی کی پالیسیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کے اندر روہنگیا لفظ کے استعمال پر پابندی لگا کر امتیازی سلوک کے عمل کو جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آنگ سان سوچی کی اس پالیسی پر میانمار کے اندر اور باہر وسیع ردعمل ظاہر ہو گا جیسا کہ صوبہ راخین میں روہنگیائی سوسائٹی کے رہنما نے آنگ سان سوچی کے اس موقف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوچی روہنگیائی افراد، ان کے مذہبی حقوق، صحت عامہ اور ثقافتی سوچ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی ہیں اور وہ ان کے حالات پر کوئی توجہ نہیں دیتی ہیں اور یقینی طور پر سوچی کی اس پالیسی پر میانمار سے باہر بھی ردعمل سامنے آئے گا۔
تاریخی تجربات نے بتایا ہے کہ کسی بھی حکمران کی جانب سے تاریخی حقائق کو چھپانا نہ صرف یہ کہ اس کے حق میں نہیں گیا بلکہ تاریخ میں اس کی شکست کی علامت بن گیا ہے جیسا کہ میانمار میں فوجیوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔