بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے ارکان کی گرفتاری
بنگلہ دیش کی خصوص فورس کے ترجمان نے جماعت اسلامی کے چار ارکان کی گرفتاری کی خبر دی ہے۔
بنگلہ دیش کی خصوصی فورس کے ترجمان مفتی محمد خان کے مطابق ان چار افراد کو دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ہونے والے افراد پر گزشتہ تین سال کے دوران بنگلہ دیش کے حریت پسند اور اقلیتی گروہوں پر خونریز حملے کرنے کا الزام ہے۔
ان افراد کی گرفتاری حال ہی میں جماعت اسلامی کے تقریبا پانچ سو حامیوں کی جانب سے اس پارٹی کے رہنما مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے خلاف راج شاہی شہر میں مظاہرے کے بعد عمل میں آئی۔ اس مظاہرے کے موقع پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے جماعت اسلامی کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں استعمال کیں اور بیس مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ جماعت اسلامی کے حامیوں نے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کے خلاف چٹاگانگ شہر میں بھی مظاہرے کیے۔
اس بنا پر سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر وسیع احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے جماعت اسلامی کے اعلی رہنماؤں اور اہم ارکان کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے اس سے قبل جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس کے ارکان کو اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ وہ انتخابات میں بھی شرکت کر سکیں۔ اس بنا پر مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر حالیہ عوامی احتجاج نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ جماعت اسلامی کے اہم افراد کو گرفتار کر کے اسے پہلے سے زیادہ کمزور کر دے۔
درایں اثنا حکومت پاکستان کا بھی یہ خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کی حوصلہ افزائی کر کے پاکستان کے قریب سمجھی جانے والی جماعتوں اور گروہوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کی پھانسی پر احتجاج کے لیے اسلام آباد میں تعینات بنگلہ دیش کے ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے سلسلے میں بنگلہ دیشی حکومت کے اقدامات پسندیدہ اقدامات نہیں ہیں جبکہ اسلام آباد بنگلہ دیش کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
حکومت پاکستان اس بات پر زور دیتی ہے کہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والی بہت سی بین الاقوامی شخصیات سمیت انسانی حقوق کے عالمی حلقوں نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف عدالتی کارروائی کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
اس بنا پر پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم سیکرٹریت کو ہدایت کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں پاکستان کی حامی شخصیات کی پھانسی کے بارے میں ضروری موقف اور پالیسیاں اختیار کریں۔
بہرحال جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کی پھانسی اور اس جماعت کے اہم ارکان کی گرفتاری کو اس ملک کے بعض حلقے شیخ حسینہ حکومت کی جانب سے اسلامی گروہوں اور جماعتوں کے خلاف کارروائی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔