May ۲۴, ۲۰۱۶ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • مجاہدت اور استقامت پر رہبر انقلاب اسلامی کی تاکید

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بعثی جارحین کے قبضے سے خرمشہر کی آزادی کی چونتیسویں سالگرہ کے موقع پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کیڈٹ یونیورسٹی کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں شرکت کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریب میں ایک اہم خطاب فرمایا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج اسلامی نظام کے خلاف روایتی فوجی جنگ کا امکان بہت کم ہے لیکن جہاد باقی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام جہادوں میں ایک جہاد ایسا ہے جس کو خداوند عالم نے جہاد کبیر کہا ہے ۔

آپ نے جہاد کبیر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاد کبیر کا مطلب یہ ہے کہ اس دشمن کی پیروی نہ کی جائے جو جدوجہد کے میدان میں ہمارے مد مقابل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اقتصاد، سیاست ، آرٹ اور ثقافت کسی بھی چیز میں دشمن کی پیروی نہ کرنا جہاد کبیر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کی پیروی نہ کرنا اتنا اہم ہے کہ خدا وند عالم نے بارہا اپنے پیغمبر کو اس کی یاد دہانی کرائی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ انقلاب کی اعلی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے ہر انقلاب کا لازمہ، مختلف کیڈر تیار کرنا اور معاشرے کی نئی نسل کو یہ اقدار منتقل کرنا ہے اور ایران کا اسلامی انقلاب بھی اس اصول اور قاعدے سے مستثنی نہیں ہے۔ انقلابوں کی اقدار اپنی کامیابی کے چند عشروں کے اندر فراموش ہو جانے کی ایک وجہ دانشوروں کا اقدار سے دور ہو جانا اور مستقبل کے لیے مختلف کیڈر تشکیل نہ دینا ہے۔ اسلامی انقلاب اپنی اعلی اقدار کے پیش نظر ایک ثقافتی انقلاب کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسی بنا پر اسے کسی بھی انقلاب سے زیادہ اقدار کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کے لیے گروپ بنانے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کی اقدار کی تشریح اور انھیں آئندہ نسل تک منتقل کرنے کے لیے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی ابتدا سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران میں مختلف ثقافتی ادارے تشکیل دیے گئے۔ مختلف علمی و سائنسی اور فوجی شعبوں میں نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے متعدد تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تمام امور میں خدا پر توکل اور بھروسے پر زور دیا ہے اور وہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ خاص طور پر خرمشہر کی آزادی میں خدا پر توکل اور بھروسے کو جوانوں کی کامیابی کا راز سمجھتے ہیں۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے صدام حکومت کے قبضے سے خرمشہر کی آزادی کے بعد ایک تاریخی جملے میں فرمایا تھا کہ خرمشہر کو خدا نے آزاد کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی سپاہ پاسداران کی کیڈٹ یونیورسٹی میں جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے خدا پر توکل اور بھروسے کو دشمنوں کے مقابل مزاحمت اور استقامت و پائیداری کا نمونہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ اڑتیس برسوں کے دوران مختلف ہتھکنڈوں اور سازشوں کے باوجود اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے اور شکست دینے کے لیے سامراجی محاذ کی ناکام کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے خدا پر توکل اور بھروسے کے ساتھ مجاہدت اور استقامت و پائیداری کی منطق کے ساتھ کامیابی کا ایک نمونہ قرار دیا۔ آپ نے اس بات پر زور دیا کہ ملت ایران بدستور میدان میں موجود ہے اور بہت سے جوان انقلاب کے راستے میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سامراجی محاذ کے ساتھ محاذ آرائی کو نابرابر اور غیرمساوی جنگ قرار دیا اور فرمایا کہ اس غیرمساوی جنگ میں دونوں فریق ایسی توانائیوں اور قدرتی وسائل کے حامل ہیں کہ مقابل فریق کے پاس وہ نہیں ہیں۔ اسلامی نظام کی طاقت کا سرچشمہ خدا کی طاقت پر توکل اور بھروسہ، کامیابی پر اعتماد اور مومن انسانوں کے عزم و ارادے کی طاقت ہے۔

ایران کے مجاہد جوانوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ایک ایسی فوج کے خلاف جنگ کی کہ جسے مشرقی اور مغربی بلاک کے اٹھاون ملکوں کی سیاسی، فوجی، مالی انٹیلی جنس اور میڈیا حمایت حاصل تھی۔ خلیج فارس کے عرب شیوخ نے صدام حکومت کو ستر ارب ڈالر کی مالی امداد فراہم کی۔ ایرانی جوانوں نے مسلط کردہ جنگ کے دوران ایک غیرمساوی جنگ میں کامیابی کا نمونہ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے باطل پر حق کے محاذ کی فتح کے وعدے اور خدا پر توکل کے ذریعے صدام کی بعثی حکومت کو سنگین شکست سے دوچار کیا۔ اس شکست کا نقطۂ عروج خرمشہر کی آزادی تھی۔ عیرمساوی جنگ، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے ختم ہونے کے ساتھ ختم نہیں ہوئی ہے۔ انقلاب کے دشمن کہ جن میں امریکہ سرفہرست ہے، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ایرانی جوانوں نے اس غیرمساوی جنگ میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف پہلوؤں سے اس غیرمساوی جنگ کو جہاد کبیر کے نام سے یاد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آج اسلامی نظام کے خلاف روایتی فوجی جنگ کا امکان بہت کم ہے لیکن جہاد باقی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام جہادوں میں ایک جہاد ایسا ہے جس کو خداوند عالم نے جہاد کبیر کہا ہے۔ اقتصاد، سیاست ، آرٹ اور ثقافت کسی بھی چیز میں دشمن کی پیروی نہ کرنا جہاد کبیر ہے۔ آپ نے فرمایا ان تمام شعبوں میں کافروں اور مشرکوں کے محاذ کی پیروی کرنے کے بجائے اسلام اور قرآن کی تعلیمات کا اتباع کرنا چاہیے۔

ٹیگس