امریکہ میں نسل پرستی پنپ رہی ہے
امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے امریکہ میں دوبارہ نسل پرستی کے ابھرنے کی بابت خبردار کیا ہے۔
جمی کارٹر نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ میں بہت سے مقامات پر نسل پرستی کا لاوا پک رہا ہے اور اس وقت اس میں سے کچھ مقامات پر یہ لاوا پھوٹ پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ بھی نسل پرستی کی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔
سابق صدر جمی کارٹر نے کہا ہے کہ اوباما کا انتخاب بحیثیت صدر آگے کی طرف ایک قدم تھا اور اسی وجہ سے بعض ری پبلیکن عناصر نے نسل پرستانہ رد عمل دکھایا جو ایک سیاہ فام کے صدر بننے کے مخالف تھے اوراب بھی مخالف ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ نسل پرستی ملتی ہے یہانتک کہ دو سو تیس برس قبل امریکہ کے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی اس سرزمین میں نسل پرستی کی لعنت موجود تھی۔
امریکہ میں تقریبا ایک سو پچاس برسوں قبل تک نسل پرستی کا شدید ترین اور منظم ترین نمونہ یعنی غلامی موجود تھی۔ اس کے بعد بھی اگرچہ غلامی ختم کردی گئی لیکن اس ملک میں کبھی بھی نسل پرستی کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔
ساٹھ کی دہائی میں شہری حقوق کی تحریکوں کی کامیابیوں سے بھی سیاہ فاموں اور سفید فام ایک ساتھ مل جل کر رہنے پر راضی نہ ہوسکے۔ البتہ حالیہ دہائیوں میں امریکہ میں کچھ تبدیلیاں ایسی آئی ہیں جن کے نتیجے میں سرانجام ایک سیاہ فام صدر کی کرسی پر بیٹھ سکا ہے۔
اس کے باوجود دوہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں بھی باراک اوباما کی کامیابی سے بھی امریکہ میں دیرینہ نسل پرستی کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ امریکہ کے سیاہ فام صدر کے سات سالہ دورہ صدارت میں متعدد مرتبہ سفید فام امریکی پولیس نے بارہا سیاہ فام نوجوانوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا ہے اور بعض ججوں نے بھی حملہ کرنے والے پولیس اھلکاروں کو بری کردیا ہے۔
اس دور میں دسیوں لاکھ غریب سیاہ فاموں کی معاشی اور رفاہی صورتحال میں بھی کسی طرح کا کوئی فرق نہیں آیا بلکہ حالیہ برسوں کے مالی بحران کے نتیجے میں اس حالت میں بگاڑ ہی آیا ہے۔ ادھر امریکہ میں دیرینہ نسل پرستی کو فی زمانہ نئی نسل پرستانہ تحریکوں کے معرض وجود میں آنے سے تقویت ملی ہے۔
امریکہ میں بعض نسل پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ نسلی اقلیتیں جیسے سیاہ فام، ریڈانڈین اور مسلمانوں کی آبادی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے اور یہ اقلیتیں سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں کردار ادا کررہی ہیں۔ اسی بنا پر امریکہ میں سفید فام نسل پرستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ نسلی اقلیتوں پر حملے کرکے امریکہ میں موجود دیگر نسلوں اور قوموں پر سفید فاموں کی نسل برتری ثابت کریں۔
اسی سوچ کے تناظر میں گذشتہ برس ایک بائیس سالہ نوجوان نے جو نسل پرستانہ افکار سے متاثر تھا سیاہ فاموں کے ایک کلیسا میں گھس کر فائرنگ کردی تھی جس میں متعدد سیاہ فام مارے گئے تھے۔ ادھر مسلمانوں اور ریڈانڈین اقوام کے خلاف ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز تقریریں ایک طرف سے امریکہ میں نسل پرستانہ رجحانات کے دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت ہے تو دوسری طرف ان سے نسلی اختلافات میں اضافہ ہوگا۔
اس وقت یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریروں اور بیانات سے خونریز نسلی اختلافات کا بھوت نہ جاگ جائے اور امریکہ کے معاشرے کو شہری حقوق کی تحریک سے پہلے والے تشدد پسند اور بدامنی کے دور میں نہ لے جائے۔
اب ایسا نہیں لگتا کہ نسلی اقلیتیں ماضی کے نسلی امتیازی رویے اور تعصبات کو برداشت کریں گی جبکہ خود کو برتر اور بالا سمجھنے والے سفید فام حلقے بھی کثیر قومی پالیسی پر خاموش رہیں۔ ان دو طاقتور حلقوں کا تصادم امریکہ کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے اور اگر ٹرمپ نومبر کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس بات کی امید ضرور رکھنی چاہیے۔