سعودی عرب اور برطانیہ، ایران کے خلاف ایک دوسرے کے شانہ بشانہ
برطانیہ کے وزیر خارجہ نے جدہ میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دعوی کیا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ برطانیہ جو کچھ ایران میں ہو رہا ہے اور جو اقدامات ایران انجام دے رہا ہے، ان پر اپنی آنکھیں بند کر لے گا۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے کہ جنھوں نے سعودی عرب کے بادشاہ ان کے ولیعہد اور جانشین ولیعہد سے ملاقات کے علاوہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک سے دو طرفہ مذاکرات انجام دیے ہیں، اسی طرح یہ بھی دعوی کیا کہ ان کا سعودی عرب کا دورہ مشترکہ امن و سلامتی کے قیام کے تناظر میں انجام پا رہا ہے اور یہ دورہ علاقے کی قوموں کی ترقی پر تاکید ہے۔
فلپ ہیمنڈ نے برطانیہ کی جانب سے علاقے میں اس کے اتحادیوں کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ حمایت صرف دفاعی شعبے میں روایتی حمایت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں سیکورٹی اور اقتصادی مدد و حمایت بھی شامل ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب سعودی عرب کی سیاسی و فوجی حمایت میں برطانیہ کا کردار اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ امن و سلامتی اور ترقی کے سلسلے میں سعودی عرب کی مدد و حمایت سے ان کا کیا مطلب ہے کیونکہ برطانیہ کی پالیسی اس کے بالکل برعکس ہے۔
برطانیہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت اور برطانوی استعمار کے مشرق وسطی کو تقسیم کرنے کے منصوبے اب عیاں ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کی سازش اس وقت ایک نئی شکل میں مشرق وسطی کے نئے نقشے کی ترسیم کے قالب میں مداخلت پسند طاقتوں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور علاقے کے بعض دیگر ممالک کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے توسط سے علاقے پر مسلط شدہ بحران اور بدامنی، اس حقیقت کی شاہد و گواہ ہے کہ کل کے استعمار پسند آج بھی علاقے میں اپنے گزشتہ استعماری مفادات کی حفاظت اور علاقے میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی اپنی پرانی پالیسی پر عمل درآمد کے درپے ہیں۔
آج مشرق وسطی کے علاقے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ علاقے میں مغرب کی مداخلت پسندانہ اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور جب تک سعودی عرب جیسے ممالک ہتھیار خریدنے، وہابی نظریات کو پھیلانے اور مغربی ملکوں سے سیاسی مراعات حاصل کرنے کے لیے اپنے پیٹرو ڈالر بے دردی سے اور بےدریغ خرچ کرتے رہیں گے واضح سی بات ہے کہ لندن ان کا حامی رہے گا۔ ریاض کی بھرپور حمایت پر فلپ ہیمنڈ کی تاکید ایک کھلی حقیقت ہے لیکن یہ بات سفید جھوٹ ہے کہ یہ حمایت علاقے کے امن و استحکام اور ترقی و پیشرفت کے لیے ہے، کیونکہ موجودہ صورت حال اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس ان ممالک میں سرفہرست ہیں کہ جو سعودی عرب کے کردار پر بھروسہ کر کے علاقے میں اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس عمل میں ایرانوفوبیا کا پروپیگنڈا، داعش کے خلاف جنگ کے لیے نام نہاد اتحاد کی تشکیل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ظاہری مذمت، رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے صرف ایک حربہ ہے۔
برطانیہ، بحرین اور سعودی عرب میں علاقے کی رجعت پسند عرب حکومتوں کی کچلنے کی پالیسیوں پر خاموشی اختیار کرتا ہے اور سعودی عرب اور اسرائیل کو کلسٹر اور فاسفورس بم فراہم کرتا ہے تاکہ وہ یمن اور غزہ میں عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار سکیں اور برطانیہ اس تعاون کو تعمیری تعلقات کے نام سے یاد کرتا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ ان حقائق کو نظرانداز کر کے درحقیقت مشرق وسطی میں امن و سلامتی کے میدان میں برطانیہ کے کردار کو موثر اور مثبت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی گزشتہ چند روز کے دوران اسی روش کے تحت حج کے امور کو چلانے میں سعودی حکام کی نااہلی، ان کی جانب سے حج کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور غیرمنطقی اقدامات پر پردہ ڈالنے اور مسائل کو غلط طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب ایرانی حاجیوں کو حج کی ادائیگی کی اجازت نہ دینے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے اور اس نے وقت ضائع کرنے کی پالیسی اپنا کر معاہدے پر دستخط کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ لیکن جو زمینی حقائق ہیں ان سے برطانیہ اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پوری دنیا آگاہ ہے اور ان حقائق پر لفاظی اور سیاسی مکروفریب کے ذریعے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔