Jun ۰۱, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۳ Asia/Tehran
  • خلیج فارس کے علاقے میں اختلافات ڈالنا برطانیہ کی اسٹریٹیجک پالیسی

برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کو علاقے کا اہم ملک قرار دیا اور کہا کہ یہ ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے درپے ہے۔

فلپ ہیمنڈ نے اس کے ساتھ ساتھ خطے میں بقول ان کے ایران کی مداخلت پر علاقائی ممالک کی تشویش کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ برطانیہ بھی اس تشویش میں علاقائی ممالک کے ساتھ ہے۔ ہیمنڈ نے مزید کہا کہ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے باوجود ہمیں علاقائی ممالک کے داخلی امور میں ایران کی مداخلت اور ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت پر آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں۔

فلپ ہیمنڈ نے ایران کی میزائلی صلاحیت کو خطرہ ظاہر کرنے پر مبنی اپنے سابقہ مواقف کو دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران نے میزائلوں کےتجربات سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بارہا خلاف ورزی کی ہے۔

فلپ ہیمنڈ نے اس انٹرویو کے دوران اس سوال کے جواب میں کہ کونسی چیز ایران کا رویہ بدل سکتی ہے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایران کے داخلی گروہوں کے دباؤ کے نتیجے میں ایران خطے اور دنیا میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ تجربے اور تاریخی واقعات کی بنا پر ہم جانتے ہیں کہ غیر ملکی دباؤ بھی اس سلسلے میں کارگر رہا ہے ۔ بنابریں اگر ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی کی تو ہم اس پر اپنا دباؤ جاری رکھیں گے۔

ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی حکام ابھی تک اسلامی جمہوری نظام کو اندر سے نقصان پہنچانے کا خیال رکھتے ہیں۔ البتہ برطانیہ ایران کے خلاف اس طرح کے اقدامات تاریخ کے مختلف ادوار میں انجام دے چکا ہے۔ تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کی تحریک کے دوران سنہ انیس سو ترپن میں برطانیہ اورامریکہ نے سازش کر کے ایران کی اس وقت کی قانونی حکومت کو گرایا تھا اور سنہ دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات کے بعد ایران میں رونما ہونےوالے فتنہ و فساد میں برطانیہ کا کردار بھی ایران میں برطانیہ کی مداخلت کے بعض نمونےہیں۔

جہاں تک علاقائی مسائل کا تعلق ہے تو خلیج فارس کے جغرافیائی مسائل اور سرحدی اختلافات کا بہت بڑا حصہ خطے میں برطانیہ کے منحوس سامراجی دور کی میراث ہے۔

برطانیہ کے نزدیک خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کے تین بنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد ان ممالک کو تمام میدانوں میں اپنے ساتھ وابستہ رکھنا ہے۔ دوسرا مقصد خطے کے امیر ممالک میں سرمایہ کاری اور ان کے ہاتھوں ہتھیار فروخت کر کے اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے اور ان تعلقات سے برطانیہ کا تیسرا مقصد خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ ایران کے اسٹریٹیجک تعلقات کی برقراری خصوصا سیکورٹی اوردفاعی میدانوں میں ان تعلقات کی برقراری کی روک تھام کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ خطے میں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے ہی درپے ہے اور اس نے فرانس اور امریکہ جیسے ممالک کا مقابلہ کرتے ہوئے علاقائی ممالک کے مشترکہ مفادات کو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ برطانوی وزیرخارجہ فلپ ہیمنڈ نے اپنے ان بیانات کے ذریعے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے اور خطے میں برطانیہ کی مداخلت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لندن اپنے اہداف کے حصول کے لئے ایران اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے تعلقات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس سے خطے میں برطانیہ کی دیرینہ پالیسی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

 

ٹیگس