طالبان کے خلاف کارروائیاں کامیاب
افغانستان میں طالبان کے خلاف افغان فوج کی کارروائیاں کامیاب رہی ہیں اور سیکڑوں طالبان ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہےکہ طالبان کے خلاف شفق نامی فوجی کارروائیاں کامیاب رہی ہیں اور ان وسیع کارروائیوں میں جو گذشتہ تین ماہ سے جاری ہیں طالبان کے اسی( 80 ) کمانڈر ہلاک ہوئے ہیں۔
صدیق صدیقی کے بقول صوبہ قندھار اور اروزگان میں حالات بہتر ہیں اور ان صوبوں میں بہت سے علاقوں کو طالبان کے کنٹرول سے نکال لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قندھار۔ اروزگان ہائی وے کو طالبان سے پاک کرنےکی کارروائیوں میں طالبان کے ایک سو ستر افراد مارے گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کی نظر میں طالبان کے مقابل شفق کارروائیوں کی کامیابی افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنے کے لئے افغان فوج کی توانائی اور پختہ عزم کو ظاہر کرتی ہے لیکن جو چیز افغانستان میں امن کے عمل کو متاثر کررہی ہے وہ امریکہ اور مغربی ملکوں کا افغانستان کی فوج اور پولیس کو لیس کرنے اور ان کو مضبوط بنانے کے وعدے پرعمل نہ کرنا ہے۔
افغانستان کو دہشتگردی کا مقابلہ کرنے اور امن قائم کرنے کےلئے طاقتور فضائیہ کی ضرورت ہے تا کہ وہ زمین اور فضا سے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے یہ ایسے عالم میں ہے کہ گذشتہ پندرہ برسوں سے افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے قبضے میں ہے اور انہوں نے افغانستان کو فضائی ساز وسامان دینے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔
افغانستان کی فوج کے بعض کمانڈروں کے مطابق طالبان کے پاس افغاں فوج سے زیادہ ترقی یافتہ ہتھیار ہیں۔ اسی وجہ سے سیاسی اور فوجی حلقوں کا کہنا ہےکہ اگر بین الاقوامی حلقوں نے افغانستان کی قومی فوج اور پولیس کو لیس کرنے کی کوشش نہ کی تو افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز امن قائم کرنے کی توانائی کی حامل نہیں ہوپائیں گی۔
افغانستان کے بڑے شہروں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں طالبان کی ناکامی بلکہ سڑکوں اور شاہراہوں پر لوگوں کو اغوا کرنےکی اس گروہ کی وارداتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ افغان فوج نے طالبان کو لگام دینے میں کامیاب کارکردگی پیش کی ہے۔ افغانستان نے اپنی فوجی ضرورت کا ساز وسامان حاصل کرنے کے لئے دیگر ملکوں سے بھی رجوع کیا ہے تا کہ وہ مختلف منڈیوں سے اپنی ضرورتیں پوری کرسکے۔
اس درمیان افغانستان کی قومی آمدنی میں اضافہ اور ہتھیار خریدنے کے لئے بجٹ کی فراہمی سے افغانستان اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنے اور دہشتگردوں کامقابلہ کرنے میں مضبوط بنتا جائے گا۔ افغانستان کی حکومت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ معدنیات ہے لیکن حکومت ان کانوں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتی ہے۔
افغانستان کے وزیر برائے معدنیات و پٹرولیم محی الدین نوری نے کہا ہے کہ صوبہ بدخشان میں لاجورد کان پر غیر ذمہ دار افراد کا قبضہ ہے اور وہ غیر قانونی طریقے سے اس کان سے معدنیات نکال رہے ہیں۔
صدیق صدیقی کے بقول گذشتہ برس حکومت نے لاجورد کان سے نکالے جانے والے قیمتی پتھروں سے لدے پینسٹھ ٹرک پکڑے تھے اور اس کام میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ شدت پسند اور دہشتگرد گروہوں کے ہاتھوں میں آمدنی کے ذرائع بدستور موجود ہیں جبکہ حکومت افغانستان اپنے اہم مالی ذرائع سے محروم ہے۔
امریکہ جو کہ افغانستان میں دہشتگردی سے مقابلے کا دعویدار ہے اس نے اب تک انتہا پسند اور دہشتگرد گروہوں کے مالی ذرائع ختم کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اسی بنا پر یہ گروہ بدستور افغانستان میں سرگرم عمل ہے اور ان کے ہاتھوں افغانستان کا امن و امان تہ و بالا ہورہا ہے۔