Jun ۱۰, ۲۰۱۶ ۱۶:۳۸ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ سعودی ڈالروں کے سامنے جھکنے پر مجبور

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سعودی عرب کی سرکردگی میں یمن پر جارحیت کرنے والے اتحاد کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں سے متعلق بلیک لسٹ سے نکالنے کے بعد اس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ دردناک ترین اور مشکل ترین فیصلہ تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جمعرات کے روز کہا کہ یمن پر جارحیت کرنے والے سعودی اتحاد کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ بعض ملکوں کی جانب سے اقوام متحدہ کی امداد اور بجٹ بند کرنے کی دھمکی کے بعد کیا گیا۔

روئٹرز نے چند روز قبل رپورٹ دی تھی کہ سعودی عرب کے اتحادیوں نے اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں سعودی اتحاد کا نام شامل کرنے کے مسئلے پر بان کی مون پر دباؤ ڈالا ہے اور ریاض نے بھی دھمکی دی ہے کہ وہ فلسطین اور اقوام متحدہ کے دیگر پروگراموں کو دی جانے والی مالی امداد منقطع کر دے گا۔

اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں وہ ممالک اور مسلح گروہ شامل ہیں کہ جن پر جنگ اور مسلح جھڑپوں کے دوران بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ سعودی اتحاد نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن پر حملے شروع کر کے اس ملک کے بے گناہ بچوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔

اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتے بچوں اور مسلح جھڑپوں کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی اتحاد گزشتہ سال یمن میں ساٹھ فیصد بچوں کی موت اور ان کے زخمی ہونے کا ذمہ دار ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یمن میں پانچ سو دس بچے شھید اور چھے سو سڑسٹھ زخمی ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں سعودی اتحاد کے نصف حملے اسکولوں اور اسپتالوں پر کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود اس ذمہ دار ادارے نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی دھمکیوں کے مقابل پسپائی اختیار کر لی۔ اقوام متحدہ کے اس اقدام نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یہ بین الاقوامی ادارہ قوموں اور ملتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے سے زیادہ بعض حکومتوں سے بلیک میل ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری عام لوگوں اور حکومتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا لیکن بعض ملک اقوام متحدہ کو سیاسی نظر سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارہ خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک وسیلے اور ذریعے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

بعض ممالک اقوام متحدہ کو مالی امداد فراہم کرنے کے بدلے اپنے خاص سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا بجٹ اس کے رکن ممالک فراہم کرتے ہیں جبکہ بعض ممالک رضاکارانہ طور پر بھی اس کی مالی مدد کرتے ہیں۔

رضاکارانہ امداد اقوام متحدہ میں سیاسی اثرورسوخ کا ایک ذریعہ ہے اور جو ممالک اقوام متحدہ کی اپنے حصے سے زیادہ مالی مدد کرتے ہیں وہ اس کو اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سعودی عرب کہ جس پر اپنے ملک اور دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کا الزام ہے اور اس نے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے بچوں سمیت یمنی عوام کے بنیادی ترین حقوق کو نظر انداز کر رکھا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اقوام متحدہ کی رضاکارانہ طور پر مالی مدد کرتا ہے، اس بین الاقوامی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کی اہمیت بعض ملکوں کے سیاسی مفادات کے سامنے اتنی کم ہو گئی ہے کہ سعودی عرب جیسا ملک انسانی حقوق کا سیاہ ماضی رکھنے کے باوجود صرف اقوام متحدہ کو ڈالروں کی شکل میں امداد دینے کی وجہ سے اس کے سیکریٹری جنرل کو مجبور کرتا ہے کہ وہ حق اور ناحق کے سامنے دردناک فیصلہ کریں۔

ٹیگس