پناہ گزینوں کی نئی لہر اور یورپ کا جاری بحران
ایک ایسے وقت میں کہ جب یورپی ممالک بدستور پناہ گزینوں کے لیے متضاد پالیسیاں اپنا کر اس بحران کو حل کرنا چاہتے ہیں، مشرق وسطی اور افریقہ کے ملکوں سے پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر یورپی ملکوں کی سرحدوں تک پہنچ گئی ہے۔
ان میں سے بہت سے پناہ گزین سمندر میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر یورپی ملکوں خاص طور پر اٹلی کی سرحدوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اٹلی کی کوسٹ گارڈ نے کل اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ بارہ سو تیس افراد کو اتوار کے روز بحیرہ روم میں نو کارروائیاں کر کے بچا لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار روز کے دوران اٹلی کے ساحلوں کے قریب چار ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔
مہاجرت کے بین الاقوامی ادارے نے بھی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دو ہزار سولہ کے آغاز سے اب تک دو لاکھ چودہ ہزار سے زائد پناہ گزین یورپی ملکوں میں داخل ہو چکے ہیں، اعلان کیا ہے کہ جنوری سے لے کر جون کے مہینے تک دو ہزار آٹھ سو چھپن پناہ گزین یورپ جانے والے راستوں میں یا تو اپنی جان کی بازی ہار گئے ہیں یا لاپتہ ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچنے والے اکثر پناہ گزینوں نے یورپ کے دیگر علاقوں تک جانے کے لیے یورپ کے جنوبی ملکوں کو استعمال کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ دو ہزار چودہ سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں میں سے دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار، پناہ گزینوں کی یورپی ممالک کی جانب مہاجرت کے نئے دور کے آغاز کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ماہرین کے بقول موسم گرم ہونے اور صورت حال نسبتا بہتر ہونے سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے بہت سے پناہ گزین یورپی سرحدوں کی جانب رواں دواں ہیں۔
اگرچہ یورپی ملکوں نے گزشتہ سال سے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے بہت سخت قوانین وضع کیے ہیں لیکن ایک راہ حل تک پہنچنے اور پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے ایک مشترکہ پالیسی اپنانے کے مسئلے کا چیلنج، بدستور یورپی ملکوں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔بہت سے یورپی ملکوں نے اس وقت پناہ گزینوں پر اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔
دوسری جانب یورپی حکام نے ترکی کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے پر دستخط کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن مختلف رکاوٹوں اور رخنہ اندازیوں کی وجہ سے اس معاہدے پر بھی ٹھیک طرح سے عمل نہیں ہو سکا ہے۔
ادھر دہشت گردانہ حملوں میں اضافے اور دنیا میں خوف و دہشت کی لہر پیدا ہونے کی وجہ سے یورپ کے مختلف ملکوں کے سیاسی گروہوں نے اس صورت حال سے غلط فائدہ اٹھا کر پناہ گزینوں کو قبول نہ کرنے پر زور دیا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے ہفتے کے روز پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بعض یورپی ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر انھوں نے پناہ گزینوں کو قبول نہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو انھیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب اس سے قبل بھی ماہرین نے ملکوں کے اختلاف رائے اور بعض ارکان کی جانب سے یورپی یونین کی پالیسیوں کی پیروی نہ کرنے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یورپی یونین کو دوسری عالمی جنگ کے بعد پناہ گزینوں کے بدترین بحران کا سامنا ہے، ایک ایسا بحران کہ اپنی مداخلت پسندانہ اور جنگ پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے جس کے وجود میں آنے کا وہ خود باعث بنی ہے۔
افریقہ اور مشرق وسطی کے بہت سے ملکوں میں جنگ کے شعلے بھڑکانا اور اپنے استعماری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان ملکوں کے ذخائر پر تسلط حاصل کرنا، اس بات کا باعث بنا ہے کہ اس وقت وسیع بحران نے ان ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ایسے حالات میں پناہ گزینوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بیشتر ارکان کی ہم آہنگی کے لیے یورپی یونین کے حکام کی جانب سے متنبہ کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہزاروں پناہ گزین جنگ اور تشدد سے بچنے کے لیے بدستور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یورپی سرحدوں کی طرف جا رہے ہیں۔
اس وقت پناہ گزینوں کی نئی لہر شروع ہونے سے ایسا لگتا ہے کہ یورپی ملکوں کو ایک بار پھر سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔