کشمیر میں تشدد میں اضافہ
ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں تشدد بڑھنے کے ساتھ ہی ریاستی وزیر اعلی نے ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں کی بس پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں اسلام کے نام پر یہ قتل عام شرمناک ہے-
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی وزیراعلی محبوبہ مفتی نے جنگجؤوں کے حملوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام امن و رحمت کا دین ہے اور رمضان کے مبارک مہینے میں بے گناہ افراد کا قتل عام اور ان پر تشدد کسی بھی طرح اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے-
ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں سنیچر کو ہندوستانی فوج کی ایک بس پر ہونے والے حملے میں آٹھ سیکورٹی اہلکار ہلاک اور اکیس زخمی ہوگئے تھے-
اس بات کے پیش نظر کہ کشمیر کی ریاستی حکومت، مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کے اتحاد سے تشکیل پائی ہے ، محبوبہ مفتی کے ردعمل کو درک کیا جا سکتا ہے اور قابل غور ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ، بھائی چارے اور محبت کا دین ہے اور ہمیشہ امن پر تاکید کرتا ہے لیکن حکومت پاکستان کی نظر میں ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں بدامنی جاری رہنے کی وجہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے بحران کشمیر کے بنیادی حل پر توجہ نہ دینا ہے-
ہندوستان میں پاکستان کے سفیرعبدالباسط نے کشمیر میں سیکورٹی اہلکاروں کی بس پر حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے کی ملکیت کے بارے میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلاف ہے - عبدالباسط نے کشمیر کے سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان گفتگو کی بھی اپیل کی تاہم یہ وہ درخواست ہے جسے نئی دہلی نے ہمیشہ مسترد کیا ہے -
ہندوستان، کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور اس علاقے کے بحران کو حل کرنے کے لئے گفتگو کرنے پر تیار نہیں ہے- اسلام آباد کا خیال ہے کہ انیس سو سینتالیس میں برصغیر کی تقسیم کے مطابق جمو و کشمیر ، مسلمان نشین علاقہ ہونے کی بنا پر پاکستان کو دیا گیا تھا لیکن ہندوستان نے برطانیہ کی ریشہ دوانیوں سے کشمیر پر حملہ کر دیا اور اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا- اس بنا پر پاکستان، کشمیر کی مالکیت کو متنازعہ سمجھتا ہے-
ہندوستان اور پاکستان، کشمیر کے مسئلے پر اب تک دوبار جنگ کر چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہونے کے پیش نظر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوبارہ کسی طرح کی جنگ دونوں ملکوں اور علاقے کے لئے ناقابل تلافی نتائج کی حامل ہو سکتی ہے -
کشمیری حلقوں کی نظر میں ہندوستانی فوجیوں کی بس پر حملے پر ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر کے وزیر اعلی کا ردعمل قابل توجہ اور قابل غور ہے لیکن اس علاقے کے عوام کو یہ بھی توقع ہے کہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کشمیر میں ہندوستانی سیکورٹی اہلکاروں کے ان جرائم پر بھی ردعمل ظاہر کریں جو وہ خصوصی اختیارات اور اپسپا قانون کے تحت انجام دیتے ہیں-
کشمیری حلقوں کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ محبوبہ مفتی اس علاقے میں بدامنی پر تشویش سے زیادہ اقتصادی صورت حال خاص طور پر سیاحت کی صنعت پر اس کے اثرات سے تشویش میں مبتلاء ہیں-
جموں و کشمیر کے وزیراعلی کے بقول جنگجؤوں اور انتہاپسندوں کے حملوں کے باعث بہت سے سیاحوں نے اس علاقے میں آنا ترک کر دیا ہے-جبکہ کشمیر ایک اسٹریٹیجک اور پرکشش مقامات کا حامل سیاحتی علاقہ ہے اور سیاحت کی صنعت کے بحال ہونے کے لئے امن و استحکام قائم ہونا ضروری ہے -
یہ وہ موضوع ہے جو حکومت پاکستان کی نظر میں صرف ہندوستان کے ساتھ اس علاقے کی مالکیت کے بارے میں اسلام آباد کے اختلافات کے بنیادی حل سے ہی ممکن ہے اور کشمیر کے علاقے کے حکام کو اس علاقے کے مسائل کو اسلام سے جوڑ کر بحران کا الزام دوسروں پرعائد کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے-