Jun ۳۰, ۲۰۱۶ ۱۸:۵۰ Asia/Tehran
  • افغانستان میں خونریز واقعات میں اضافہ

ایسی حالت میں کہ ماہ مبارک رمضان میں افغان عوام اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ طالبان اپنی خونریز کارروائیوں کا عمل روک دیں گے، تاہم خبروں اور رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں خونریز واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

جمعرات کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں پولیس کیڈٹوں کی حامل بس پر ہونے والے حملے میں کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے۔

افغانستان کے ایک مقامی عہدیدار موسی رحمتی کا کہنا ہے کہ یہ پولیس اہلکار، کابل میں چھٹیاں گذارنے کے لئے صوبے وردک میں ایک تربیتی مرکز سے واپس لوٹ رہے تھے۔ طالبان گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

طالبان ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا جو دو حملہ آوروں نے انجام دیا۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے۔ افغانستان کے جرائم تحقیقات کے ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ شہر کابل میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں عدلیہ کا ایک اعلی عہدیدار ہلاک ہو گیا۔ یہ عہدیدار صوبے قندوز کی اپیل کورٹ کا ایک جج تھا۔

اس سے قبل طالبان نے صوبے فراہ کی اپیل کورٹ کے ایک جج شمس الدین کو پھانسی دیدی تھی۔ قندوز کی اپیل کورٹ کے جج کو ایسی حالت میں ہلاک کیا گیا کہ دو ہزار تیرہ میں صوبے قندوز میں عدلیہ کی عمارت پر خونریز حملہ کر دیا گیا تھا جس میں چھیالیس افراد منجملہ چھتّیس عام شہری مارے گئے تھے۔

افغانستان میں طالبان کے جارحانہ حملوں میں ایسی حالت میں اضافہ ہوا ہے کہ امریکہ، اس صورت حال سے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ایک موقع کے طور پر فائدہ اٹھا رہا ہے۔ صوبے ہلمند کے مقامی حکام نے اعلان کیا ہے کہ اس صوبے میں جلد ہی امریکہ کے دو سو تازہ دم فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔

ہلمند کے سیکورٹی سربراہ آقا نور کینتور نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوجی، صوبے ہلمند کے لشکر گاہ ایئرپورٹ پر تعینات ہوں گے۔ علاوہ ازیں داعش دہشت گرد گروہ نے بھی مشرقی افغانستان میں واقع صوبے کنڑ اور نورستان کے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے رہائشی مکانات ترک کر دیں۔

افغان پارلیمنٹ میں کنڑ اور نورستان کے ممبروں نے اعلان کیا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ نے ان دونوں صوبوں کے عوام کو انتباہ دیا ہے کہ وہ اپنا گھربار چھوڑ کر چلے جائیں ورنہ انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان کی سینٹ کے چیئرمین فضل ہادی مسلم یار نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان دونوں صوبوں کے عوام کے خلاف داعش دہشت گرد گروہ کی دھمکی کا سنجیدگی سے جائزہ لے۔

حال ہی میں افغانستان کے علمائے کرام نے کابل کی عبدالرحمان جامع مسجد میں اپنی ایک نشست میں مسلح افراد کے غیر انسانی اور غیر اسلامی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے ان سے جرائم بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس نشست میں افغان شیعہ علماء کونسل کے رکن اسداللہ یوسفی نے کہا تھا کہ دین اور قرآنی احکامات کی بنیاد پر افغان عوام، تمام مقدس مقامات کا دفاع کریں گے اور دشمنوں کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔

افغانستان کے اس عالم دین نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں نے ماہ مبارک رمضان میں نہ صرف یہ کہ اس مقدس مہینے کی حرمت کو پامال کیا بلکہ وہ مسجد تک کو حملے کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انھیں اپنے ان وحشیانہ جرائم کی کوئی پرواہ تک نہیں ہے۔

ٹیگس