ایٹمی معاہدہ: امریکہ کی خلاف ورزیاں
امریکہ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پیر کو ایک رپورٹ میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں فریب کاری سے کام لے رہا ہے۔
یہ رپورٹ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیان ایٹمی معاہدے یا جامع ایکشن پلان کو ایک برس گذرنے پر شایع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے سے حاصل ہونے والی تمام مراعات سے استفادہ کرے گا لیکن اس کے بعد بہت تیزی سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔اس رپورٹ میں ایسے عالم میں ایران کے خلاف منفی پروپگینڈا کیا جارہا ہے کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی مسئلے کو میزائل مسئلے سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں جرمنی کی انٹلیجنس ایجنسی نے ایک بے بنیاد رپورٹ میں اسی طرح کے الزامات لگائے تھے۔ جرمنی کی انٹلیجنس ایجنسی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں دعوی کیا تھا کہ ایران نے ایٹمی ٹکنالوجی اور ایٹمی ساز و سامان حاصل کرنے کی خفیہ کوششیں کی ہیں۔
لفظ فریبکاری کو استعمال کرنا دراصل مغرب کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تعلق سے اپنی دوغلی پالیسیوں کا جواز پیش کرنا ہے ۔ البتہ امریکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کو کانگریس کے فیصلوں کے پردے میں چھپادیتا ہے جو کہ وائٹ ہاوس سے مستقل طور پر عمل کرتی ہے۔ وائٹ ہاوس اس سلسلے میں صرف اتنی بات کہتا ہےکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے خلاف کانگریس جن بلز کو منظور کرے گی انہیں صدر ویٹو کردیں گے۔یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور ان کے منفی آثار ایران کے ساتھ عالمی بینکوں کے تعاون میں جاری خلل کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایران کو مسافر طیاروں اور ضروری کل پرزوں کی فروخت کی راہ میں ڈالی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔ یہ امور مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی یہ وعدہ خلافیاں ایسے عالم میں ہیں کہ کہا جارہا ہے کہ امریکی کانگریس چودہ جولائی کو ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کو ایک برس گذرنے کے موقع پر ایران کے خاف تین بلز پر ووٹنگ کرائے گی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ بل ری پبلیکن پارٹی کی حمایت سے منظور کرلئے جائیں گے۔ ان میں پہلا بل ایران کے میزائل تجربوں، انسانی حقوق اور دہشتگردی کے بہانے ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کے بارے میں ہے اور دوسرا بل بیرونی تجارت اور مالی نظام میں ایران کو ڈالر تک دسترسی حاصل کرنے سے روکنے کے سلسلے میں ہے۔ تیسرا بل امریکی کمپنیوں کے بارے میں ہے جو ان کمپنیوں کو ایران کے ہیوی واٹر کی خریداری سے روکتا ہے۔
امریکہ کے یہ اقدامات ایسے عالم میں جاری ہیں کہ ایرانی قوم نے دھمکیوں اورپابندیوں پر صبر کرکے پرامن ایٹمی انرجی سے استفادہ کرنے اور یورینیم کی افزودگی کے اپنے حق کو استقامت کے ساتھ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تحت منوالیا ہے لیکن جیسا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے نیشنل ٹی وی پر گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے ایران کے معیشت کی راہ میں امریکہ کی بعض ابتدائی پابندیاں بدستور قائم ہیں جن کی وجہ سے ایران کو اپنی اقتصادی سرگرمیاں شروع کرنے کےلئے کافی وقت لگ جائے گا۔سید عباس عراقچی نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اپنی رپورٹ سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بان کی مون کے اس اقدام میں امریکہ او مغربی ملکوں کا دباؤ موثر رہا ہے۔ امریکہ نے جس طرح سے وعدے کئے تھے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا ہے اور ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا آمانو نے اکثر موقعوں پر یکطرفہ مواقف اپنانے کے باوجود اس بات کی تائید کی ہے۔ امریکہ کے اقدامات اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ دراصل فریبکاری کی پالیسیوں کا مصداق ہے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی کررہا ہے۔