عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے ایران مخالف بیانات
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے لندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران اور بعض عرب ممالک کے کشیدہ تعلقات کے بارے میں اپنے مواقف بیان کئے۔
انہوں نے اس انٹرویو میں ایران اور عرب ممالک کے علاقائی تعاون کی ضرورت کی بات کی۔ احمد ابوالغیط کا یہ انٹرویو اتوار کے دن شائع ہوا ہے۔ احمد ابوالغیط نے اس انٹرویو میں بعض بے بنیاد دعوے کئے ہیں۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نے بزعم خویش ایران کے حالیہ برسوں کے اقدامات کو عرب ممالک کے مفادات کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ایران کے اقدامات عرب ممالک کے مفادات کے منافی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات میں شدت پیدا نہیں ہونی چاہئے حالانکہ ان کے اپنے بیانات اختلافات کو ہوا دینے اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے پر مبنی ہیں ۔ انہوں نے اپنے بے بنیاد دعوے کو درست قرار دینے کے لئے ایران پر بحرین کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا اور دعوی کیا کہ بحرین کو ایران کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نے ایران کے علاقائی کردار کے سلسلے میں جو بے بنیاد دعوے کئے ہیں وہ لفاظی ، جھوٹ اور گھسے پٹے طریقے کے سوا کچھ نہیں۔ان بیانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی حقیقت سامنے آ جائے۔
عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل جیسی تنظیموں نے عالم اسلام کی تقدیر خصوصا فلسطین کی مظلوم ملت کے دفاع کے سلسلے میں کسی ذمےداری اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے آج ان کو تشویش کا سامنا ہے۔ ان تنظیموں کے رکن بعض ممالک دہشت گردی کے مقابلے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں بنائےجانے والے نام نہاد اتحاد کے بھی رکن ہیں۔ یہ اتحاد یمن میں خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے سعودی عرب کے پیسوں کے باعث ان ممالک کے نام بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک کی فہرست سے تو خارج کر دیئے ہیں لیکن ان کی ماہیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ عرب لیگ غزہ پٹی کے فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرنے کے بجائے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے درپے ہے اور اس نے کبھی بھی اپنے ان اقدامات اور مواقف کے منفی نتیجے سے عبرت حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی خطے کی مشکلات اور مسائل کے اسباب پر توجہ دی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ایران نے ایک فرض شناس ملک کی حیثیت سے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ہمیشہ باہمی تعاون، پرامن بقائے باہمی اورامن و استحکام پر تاکید کی ہے۔
اگرچہ ایران اور خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک کے تعلقات میں کسی حد تک کشیدگی پائی جاتی ہے لیکن اس کشیدگی کا سبب وہ اقدامات ہیں جو خطے کے بعض ممالک اور مداخلت کرنے والی دوسری طاقتوں نے انجام دیئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے اصول بہت واضح ہیں۔ یہ اصول مظلوموں کے حقوق کے دفاع ، خود مختاری اور اقوام کے حقوق کے احترام کی بنیاد پراستوار ہیں۔
سعودی عرب جیسی حکومتیں اوران کی پیروی کرنے والی عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل جیسی تنظیمیں اپنے دعووں کے برخلاف عملی طور پر خطے میں بحران پیدا کرنے، اپنی اقوام کے جائز حقوق کے مطالبے کے مقابلے اور اسرائیل کے مقابلے میں عالم اسلام کو کمزور کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
خلیج فارس تعاون کونسل اورعرب لیگ نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی اپیل پرحزب اللہ کو، کہ جو اسرائیل کی جارحیت کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے، دہشت گرد قرار دے کر اسی راستے پر قدم رکھا جس کی ڈکٹیشن اسے سعودی عرب نے دی تھی۔
عرب لیگ کی جانب سے ٹھوس اقدام نہ کئے جانے کی وجہ سے عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلۂ فلسطین کنارے لگا دیا گیا ہے۔ یہ اقدامات کسی بھی طور خطے کے مشترکہ مفاد میں نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اور صرف صیہونی حکومت کے فائدے میں ہیں۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے سعودی عرب کی پیروی میں ایران کے خلاف جو بیانات دیئے ہیں ان کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔