جوہری توانائی کے شعبے میں ایران کا طویل المدت منصوبہ
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ ایران ایٹر یعنی انٹرنیشنل تھرمونوکلیئر ایکسپیری مینٹل ری ایکٹر میں چھتّیسویں رکن ملک کی حیثیت سے ایران کو تسلیم کئے جانے کے بارے میں حالات سازگار ہوگئے ہیں۔
انھوں نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے جوہری توانائی سے استفادہ منجملہ ایٹر میں ایران کی شمولیت کے طویل المدت منصوبے اور مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
علی اکبر صالجی نے تھرمونوکلیئر اورانسانی برادری کے لئے اس کی ضرورت کا تفصیل کے ساتھ ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پرعمل درآمد کے بعد، کہ جس پراس وقت فرانس میں عمل درآمد بھی کیا جا رہا ہے، طے پایا تھا کہ پہلا تجربہ دو ہزار بیس تک کر لیا جائے گا تاہم کچھ وجوہات کی بناء پر ہونے والی تاخیر کی وجہ سے یہ تجربہ پانچ برسوں کے لئے موخر کر دیا گیا۔
اس منصوبے پرعمل درآمد کے ساتھ تھرمونوکلیئر کے ذریعے تقریبا پانچ سو میگاواٹ توانائی پیدا کی جاسکے گی۔ انھوں نے جوہری سرگرمیوں کے سلسلے میں ایران کی جوان نسل میں پائی جانے والی خوداعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ آئندہ تیس سے چالیس برسوں کے دوران تجارت کی شکل اختیار کر جائے گا اور ہمیں اس منصوبے میں شمولیت کے لئے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ تیس برسوں میں ملک میں تھرمونوکلیئرمرکز کے قیام کے لئے آمادگی پائی جاسکے۔
بین الاقوامی تھرمونوکلیئر منصوبے پرعمل درآمد کا مقصد اس مرکز کے قیام کے ذریعے ماحولیات کے لئے سستی و سلامتی کی حامل بجلی پیدا کرنا ہے اور یہ بالکل شمسی توانائی کی مانند بجلی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
تھرمونوکلیئرمرکز کے لئے ہائیڈروجن ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس منصوبے میں ایران کی شمولیت کے لئے ڈاکٹرعلی اکبر صالحی کے دورہ فرانس کے دوران حالات سازگار ہوئے ہیں۔
تھرمونوکلیئر کے سلسلے میں علیحدہ تعاون کے بارے میں انھوں نے ایران اور فرانس کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں قبل تھرمونوکلیئر کے چھے فرانسیسی ماہرین نے ایران کا دورہ بھی کیا تاکہ ایٹمی توانائی کے ادارے میں گفتگو اور صورت حال پرغور کیا جاسکے اس لئے کہ وسائل و آلات سے استفادے کے تعلق سے ایرانی ماہرین کے تعاون سے تھرمونوکلیئر کے شعبے میں قدم آگے بڑھانے کا عزم وارادہ ہے۔
واضح رہے کہ اس سائنسی منصوبے میں اس وقت یورپی یونین کے رکن ممالک، امریکہ، روس، چین، ہندوستان، جنوبی کوریا اور جاپان شامل ہیں۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے تھرمونوکلیئرکو ایٹمی سائنس کے ساتھ ساتھ ایران کے ایٹمی ادارے کا ایک بنیادی منصوبہ قرار دیتے ہوئے امید ظاہرکی کہ آئندہ برسوں میں اس سلسلے میں اچھی پیشرفت ہوگی۔
ایٹمی توانائی کے بارے میں ایران کا نقطہ نظر طویل المدت میں اس عظیم سائنسی منصوبے سے استفادہ کرنا ہے۔ گذشتہ سال چودہ جولائی کو ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پانے والا ایٹمی سمجھوتہ اہم اور کلیدی نکات کا حامل ہے جن میں روائتی پرامن جوہری توانائی سے استفادے کی ضمانت کا مسئلہ بھی شامل ہے حالانکہ مغرب ایران کے جوہری پروگرام کو ختم یا اس کو خاتمے کے مترادف بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران، پرامن جوہری توانائی اور پرامن جوہری منصوبے کا حامل ملک ہے جس میں یورینیم کی افزودگی اورایٹمی ایندھن کی سائیکلنگ نیزری ایکٹر کی ضرورت کا ہیوی واٹرتیار کرنا شامل ہے اور اس بات کو عالمی برادری نے تسلیم بھی کیا ہے۔
علی اکبر صالحی کے مطابق ایران میں بھاری پانی کی پیداوار کی شرح بیس ٹن سالانہ ہے اور ایران بھاری پانی کی اس پیداوار میں اضافہ کرنے کی بھی توانائی رکھتا ہے۔ انھوں نے بھاری پانی کا استعمال کرنے والے ملکوں میں اس پانی کے استعمال کے مختلف طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پانی کا استعمال، دواؤں اور کیمیکل صنعتوں خاص طور سے تھرمونوکلیئر میں ہو سکتا ہے۔
درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہی ممالک جو ایران کی تمام جوہری سرگرمیوں کو بند اور اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کو ختم کئے جانے کی کوشش کر رہے تھے اب وہی ممالک، ایران کی اس پیدوار کے خریدار ملکوں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور وہ ایٹر جیسے عظیم جوہری منصوبے میں ایران کی شمولیت و رکنیت کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔