آل خلیفہ کے مظالم پراقوام متحدہ کی خاموشی
بحرین کی آل خلیفہ حکومت اپنے مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اس کے باوجود بین الاقوامی تنظیموں خصوصا اقوام متحدہ نے ان مظالم کے سلسلے میں ایک بے جان موقف اختیار کررکھا ہے ۔ یہ تنظیمیں صرف نوٹس دینے اورغیر لازم الاجراء اپیلیں کرنے پراکتفا کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دفتر نے بحرین کی جمعیت الوفاق کو کالعدم قرار دینے پر مبنی اس ملک کی عدالت کے فیصلے پر صرف افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بحرینی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے خصوصا پرامن طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دینے والے حکومت مخالف تنظیموں پر پابندی کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
بحرین میں بحران کو شروع ہوئے چھیاسٹھواں مہینہ گزر رہا ہے۔ اس ملک میں چودہ فروری دو ہزار گیارہ سے حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک بحرین میں آل خلیفہ کی شاہی حکومت کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہےکہ یہ اقلیت کی حکومت ہے اور دوسری بات یہ ہےکہ اس حکومت کے عہدیدار بنیادی طورپرمقامی نہیں ہیں۔ آل خلیفہ حکومت کے عہدیدار مظاہرین کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں حتی اس سلسلے میں انہوں نے آل سعود کے سیکورٹی اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔
آل خلیفہ حکومت نے اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے تمام اہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اہم بین الاقوامی کنونشنوں کے مطابق تشدد، امتیازی سلوک، زندگی کے حق کو نظر انداز کرنا، جبری طور پر کسی کو جلا وطن کرنا، شہریت کی منسوخی، بچوں اور بوڑھوں سمیت تمام شہریوں کو تعلیم سے محروم کرنا، اظہار رائے اور مذہب اورعقیدے کے حق کو نظر انداز کرنا منع ہے۔ بحرین بھی ان کنونشنوں کا رکن ہے اور اس ملک کی حکومت نے ان تمام ممنوعہ امور کا ارتکاب کیا ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں خصوصا اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے آل خلیفہ کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا بے جان سا موقف اختیار کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ نے بحرین میں چھیاسٹھ مہینوں سے جاری بحران کے دوران انسانی حقوق کونسل کے صرف اجلاس ہی بلائے ہیں۔ ان اجلاسوں میں کسی بھی ملک منجملہ آل خلیفہ حکومت کو کسی چیز کا پابند نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ صرف چند سفارشات ہی پیش کی جاتی ہیں۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران انسانی حقوق کمیشن کی بجائے انسانی حقوق کونسل کی تشکیل کا ایک سبب یہ تھا کہ یہ کمیشن سیاست کا شکار ہو کر رہ گیا تھا۔ تب اس کی جگہ انسانی حقوق کونسل کو تشکیل دیا گیا تاکہ یہ نقص برطرف ہوجائے لیکن بحرین کے بحران جیسے بحرانوں سے متعلق انسانی حقوق کونسل کی کارکردگی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یہ کونسل بھی سیاست کا شکار ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ آل خلیفہ کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔
صرف افسوس کا اظہار اور نظرثانی کرنے کی اپیل اس بات کا سبب نہیں بن سکتی ہےکہ بحرین کی حکومت انسانی حقوق کی پابندی کرے گی۔
حتی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی بحرین کے بحران منجملہ اس ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی جمعیت الوفاق کو کالعدم قرار دینے کو "بحرین میں انسانی حقوق کو محدود کرنے پر مبنی اس ملک کی حکومت کا تازہ ترین اقدام " قرار دیا ہے اور اس حکومت کے خلاف کسی بھی طرح کے قابل عمل اور لازم الاجراء اقدام سے گریز کیا ہے۔
اس صورتحال میں آل خلیفہ حکومت کسی طرح کے وقفے کے بغیر بدستوربحرین میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔