Dec ۰۱, ۲۰۱۶ ۱۵:۲۳ Asia/Tehran
  • ترکی کو شام کے خلاف جارحیت میں ناکامی

شام کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ شام پر جارحیت کے سلسلے میں ترک صدر کے بیانات سے ان کی دروغگوئی واضح ہوجاتی ہے۔

 

شام کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ شام پر جارحیت کے سلسلے میں ترک صدر کے بیانات سے ان کی دروغگوئی واضح ہوجاتی ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے منگل کواستنبول میں ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ شام میں ترک فوج کی موجودگی کا ھدف صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانا ہے۔ شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے بدھ کو وزارت خارجہ کے ذرایع کےحوالے سے رپورٹ دی تھی کہ ان بیانات سے واضح طرح سے معلوم ہوجاتا ہے کہ شام کی سرزمین پر حملہ ترک صدر کے توھم اور لالچ کا نتیجہ ہے۔شام کے اس ذریعے نے کہا ہے کہ یہ توھمات اور لالچی نظریات ظالمانہ اور انتہا پسندانہ خیالات پر مشتمل ہیں اور ان ہی بنا پر ہی ترکی دہشتگرد گروہوں کا اڈا بن گیا ہے۔ ترکی نے چوبیس اکتوبر سے شام میں سپر فرات نامی فوجی کاروائیاں شروع کی ہیں۔یہ کاروائیاں شام کے شمالی علاقے میں کی جارہی ہے۔ شام کی حکومت سپر فرات آپریشن میں شام میں فری سیرین آرمی کی حمایت کررہی ہے جبکہ اس سے پہلے کہا تھا کہ یہ آپریشن داعش دہشتگرد گروہ اور کرد ملیشیا سے مقابلہ کرنے کےلئے کیا جارہا ہے۔ روس نے بھی صدر بشاراسد کے بارے میں ترک صدر کے بیانات کو نہایت حیرت انگیز اور غیر ذمہ دارانہ قراردیا ہے۔ جو چیز مسلم ہے یہ ہے کہ ترک حکام کے بیانات شام میں روزافزون فوجی مداخلت اور سیاسی سازشوں کو آشکار کررہے ہیں۔ بلاشک ترک صدر کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کے مد نظر شام کی سرزمین میں دہشتگردی سے مقابلہ کرنا نہیں ہے جس کا  اعلان وہ اب تک کرتا آیا ہے۔ ترک حکام چاہتے ہیں کہ شام میں حکومت تبدیل ہوجائے جبکہ یہ فیصلہ کرنے کاحق صرف شام کے عوام کو ہے۔یاد رہے یہ ھدف ترک حکام کے ایجنڈے پر رہا ہے اور اسی بنا پر وہ زیادہ سے زیادہ گستاخ ہوتے گئے ہیں اور انہوں نے وسیع پیمانے پر شام کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کی ہے۔ ترکی کے صدر کے بیانات سے ایک بار پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شام کے مسائل کا تعلق اندرون شام کی نسبت بیرون شام سے کہیں زیادہ ہے۔ رجب طیب اردوغان کے تشہیراتی بیانات کا مقصد رائے عامہ کے سوال سے پیچھا چھڑانا ہے کیونکہ عوام ان سے کبھی بھی یہ پوچھ سکتے ہیں کہ شام میں کئی برسوں کی مداخلت کا نتیجہ کیا نکلاہے ؟اردوغان کے بیان کو دہشتگردوں کی دلجوی قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ حلب میں ان کا محاصرہ کرلیا گیا ہے اور عوام بھی ان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور وہ حتمی شکست کے دہانے پرآپہنچے ہیں۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہےکہ ترکی کو آئے دن شام میں مداخلتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے نصیب میں ناکامی اور شکست  ہی آئی ہے اور وہ سیاسی اور ارضی لحاظ سے شام کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ ترک حکام کے اس طرح کے منافقانہ مواقف ان کے شام کے دلدل میں مزید پھنسنے کا سبب بن گئے ہیں۔   

 

ٹیگس