سعودی عرب دنیا بھر میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں ملوث
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے دہشت گرد گروہوں میں اپنے ملک کے ہزاروں شہریوں کی شمولیت کی خبر دی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان منصور ترکی نے پیر کے دن کہا کہ دو ہزار سے زیادہ سعودی شہری دہشت گرد گروہوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ منصور ترکی نے مزید کہا کہ ان میں سے زیادہ تر عناصر کی جگہ کا پتہ لگا لیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے صراحت کے ساتھ کہاکہ سعودی عرب کے سیکڑوں شہری دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جیلوں میں قید ہیں۔ منصور ترکی کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ایک ہزار پانچ سو چالیس سعودی شہری شام، افغانستان اور عراق میں دہشت گرد گروہوں میں شامل ہیں۔
البتہ سعودی عرب کے اس عہدیدار کی جانب سے بیان کئے جانے والے ان اعداد و شمار سے قبل مختلف خبروں اور رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوچکی تھی کہ سعودی عرب دنیا میں دہشت گردی کی سوچ پروان چڑھانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی ملکی اور غیر ملکی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ خطے اور دنیا کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث اکثر عناصر کا تعلق یا تو سعودی عرب سے ہے یا وہ سعودی عرب کی وہابیت سے متاثر ہیں اور ان کو آل سعود کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی جڑ وہابیت کے غلط اور انتہا پسندانہ نظریات ہی ہیں۔ ان غلط عقائد نے ہی خطے اور دنیا میں آل سعود کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اس وقت سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشت گردہ گروہ منجملہ داعش اور القاعدہ مختلف ناموں کے ساتھ مثلا انصار الشریعہ، بوکوحرام اور الشباب افریقہ ، ایشیا حتی یورپ میں سرگرم ہیں اور یہ گروہ عالمی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
وکی لیکس کی دستاویزات کے مطابق امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب دنیا بھر میں دہشت گرد گروہوں کی مالی حمایت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ہلیری کلنٹن نے پاکستان میں القاعدہ، طالبان اور لشکرطیبہ کو سعودی عرب کے حمایت یافتہ نمایاں ترین دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے اور خبردارکیا ہے کہ آل سعود دنیا بھر میں دہشت گردوں کی مالی حمایت کرتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب نائن الیون کے دہشت گردانہ واقعے کے ملزمین میں سے بھی اکثر کا تعلق سعودی عرب سے ہی ہے۔ گیارہ ستمبرکے حملوں سے متعلق تیار کی جانے والی رپورٹ سے ان اٹھائیس صفحات کے نکال دیئے جانے سے ، کہ جن میں ان دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب کے کردار کا ذکر کیا گیا تھا، اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہے لیکن واشنگٹن ریاض کے ساتھ تعاون کی وجہ سے ان حملوں میں سعودی عرب کے کردار کےمنظر عام پر آنے کا مخالف ہے۔کہا گیا ہےکہ سعودی عرب سے متعلق صفحات کو رپورٹ سے نکالنے میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نےبھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اقدامات سے گیارہ ستمبر کے واقعے میں آل سعود کےملوث ہونے ، خطے میں ریاض کے اقدامات اور دہشت گرد گروہ وجود میں لانے سے سی آئی اے کے باخبر ہونے کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ بات اب کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ سعودی حکومت نے وہابی افکار کےمرکز اور افغانستان سے لے کر امریکہ تک دنیا بھر میں دہشت گرد بھیجنے والے ملک کی حیثیث سے دہشت گردی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شام، عراق، یمن ، امریکہ اور یورپی ممالک میں سیکڑوں سعودی شہریوں کی گرفتاریاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اگر خطے کے دقیانوس عرب ممالک خصوصا سعودی عرب اور مغربی ممالک کی حمایت اور مدد نہ ہوتی تو دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ اس حد تک نہیں بڑھا سکتے تھے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ صرف عراق اور شام میں ہی نہیں بلکہ وہ شمالی افریقہ کےبہت سے ممالک مثلا مصر، لیبیا اور تیونس میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی برآمدات کو تیل کے بعد سعودی عرب کی دوسری بڑی برآمدات قرار دیا جاسکتا ہے اور سعودی عرب تخریب کاری پر مبنی اپنے اقدامات کی وجہ سےدنیا بھر میں دہشت گردانہ نظریات پروان چڑھانے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے والے سب سے بڑے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔