سازباز مذاکرات از سر نو شروع کرنے پر محمود عباس کی آمادگی
فلسطین کی نام نہاد خود مختار انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات فلسطینی سرزمینوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ روکے جانے سے متعلق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیانات کے بعد کہا کہ اگر صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین میں صیہونی بستیوں کی تعمیر روکنے پر آمادہ ہو تو وہ اس کے ساتھ سازباز مذاکرات از سر نو شروع کر سکتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ کی رات اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ڈیڈ لاک کے شکار سازباز مذاکرات کے بارے میں کہا تھا کہ اسرائیل صیہونی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے سے تنہائی کا شکار ہو گا اقوام متحدہ کی قرارداد سے نہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کے دن ایک قرارداد منظور کی تھی جس کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر رکوانا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چودہ اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیۓ ۔امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی حکام نے ایسی حالت میں صیہونی بستیوں کے غیر قانونی ہونے کی بات کی ہے کہ جب گزشتہ چند عشروں کے دوران وہ اسرائیل میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کے اصل حامی تھے اور سب سے زیادہ انہوں نے ہی اسرائیل کی مالی اور سیاسی حمایت کی تھی۔ اسی تناظر میں امریکہ نے صیہونی بستیوں کی تعمیر کی مذمت میں منظور کی جانے والی قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا اور ووٹنگ میں حصہ نہ لینے پر ہی اکتفا کی۔ امریکہ اپنے اس طرح کے پرفریب اقدامات اور بحران فلسطین کے بارے میں مبہم مواقف کے ذریعے رائے عامہ کو دھوکہ دینے پر مبنی اپنی پالیسیوں پر عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے۔ یہ صورتحال مسئلہ فلسطین کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کے متضاد بیانات کا سبب بنی ہے۔ ایک جانب امریکی وزیر خارجہ نے صیہونی بستیوں کی تعمیر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے تو دوسری طرف انہوں نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی وسیع امداد کی طرف اشارہ کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ اسرائیل کو سب سے زیادہ امریکی امداد باراک اوباما کے دور حکومت میں دی گئی۔ ایسے حالات میں کہ جب صیہونی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں اسرائیل کے خلاف امریکہ کی لفاظی کا سلسلہ جاری ہے اور امریکہ نے صیہونی بستیوں کی تعمیر رکوانے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا ہے ، فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ساز باز مذاکرات کو از سر نو شروع کرنے پر آمادہ ہیں بشرطیکہ اسرائیل صیہونی بستیوں کی تعمیر روک دے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ محمود عباس اب بھی مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکہ اور یورپ کی جانب سے تیار کردہ سازش کے تحت کئے جانے والے سازباز مذاکرات سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مغربی ممالک نے یہ سازش اس انداز میں تیار کی ہے کہ ان کے ذریعے بظاہر امن پسندانہ اقدامات کے تحت صرف صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ہی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطی امن منصوبہ چونکہ مغربی حکومتوں اور صیہونی حکومت کے مفادات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے اس لئے یہ ایک ناکام منصوبہ ہے۔ سازباز مذاکرات کے از سر نو آغاز کی بات ایسی حالت میں کی جا رہی ہےکہ جب صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے انتہاپسند ترین کابینہ تشکیل دے کر مشرق وسطی امن عمل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صیہونی حکومت امن عمل پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ ان حالات میں نام نہاد فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کی جانب سے سازباز مذاکرات کے از سر نو آغاز پر تاکید کے معنی فلسطینی کاز کو پامال کرنے اور فلسطینی کاز یعنی انتفاضہ سے فلسطینی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے مقصد سے مغربی حکومتوں اور صیہونی حکومت کا ساتھ دینے کے ہیں۔