فرقہ واریت کے مقابلے کے لئے افغان عوام کی ہوشیاری کی ضرورت
افغانستان میں کان کنوں پر ہونے والے حملے میں تیرہ کان کن جاں بحق ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں اس حملے کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ جاں بحق ہونے والے مزدوروں کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا۔ ان لوگوں پر اس وقت دہشتگردانہ حملہ کیا گیا جب وہ صوبہ بغلان میں واقع اپنے کام کاج کی جگہ سے بامیان واپس جا رہے تھے۔
افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے کان کے مزدوروں پراس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مجرمانہ اقدام قراردیا۔افغانستان کے نائب صدر سرور دانش نے بھی اس دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی اور سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مزید چوکسی کا مظاہرہ کرے۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے قتل عام کو ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ قرار دیا ہے اور حکومت کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرے۔ چیف ایگزیکیٹو کے معاون نے کان کنوں کے قتل عام کو تکفیری گروہ داعش کی دہشتگردی قراردیا ہے اور افغانستان کے عوام سے اپیل کی ہے کہ دہشتگردوں اورفرقہ واریت پھیلانے پر مبنی ان کی سازش کا مقابلہ کریں اور ہوشیار رہیں۔
افغانستان میں فرقہ واریت پھیلانا اورقومی جھڑپوں کو مذہبی رنگ دینے کی کوششیں کوئی نیا اقدام نہیں ہے۔افغانستان میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ اور اس ملک میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے معرض وجود میں آنے سے دہشتگردی پھیل رہی ہے۔ اس گروہ کو سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ طالبان نے دعوی کیا ہے کہ اس کے جنگجو کان کنوں کے قتل عام میں ملوث نہیں ہیں کیونکہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ مزدوروں،کسانوں یا مسافروں کو مذہب کی بنا پر یا ان کے کام اور پیشے کی بنا پر قتل کیا گیا ہو۔ سعودی عرب افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں ایک یونیورسٹی بنا کر اس ملک میں وہابیت کو مضبوط کررہا ہے۔ یہ منحرف فرقہ مذہبی جھڑپوں اور فرقہ واریت کی فضا میں ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ وہابیت نے برسوں سے پاکستان میں مدرسے بناکرعلاقے میں مذہبی دہشتگردی اورفرقہ واریت کو ہوا دی ہے اور اب افغانستان میں شیعوں اور سنیوں کو آپس میں لڑوانا چاہتی ہے ۔ دراصل وہابیت اور فرقہ پرستی پاکستان سے افغانستان میں آئی ہے جس کی آل سعود مالی حمایت کرتی ہے۔ تکفیری دہشتگرد گروہ جو علاقے میں وہابیوں کا آلہ کار شمار ہوتا ہے وہ شیعہ مسلمانوں اور اھل سنت کو قتل کرکے ان کے درمیان اختلافات پیدا کر کے دونوں کو مذہبی جنگ کی آگ میں دھکیل دینا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر سابق جہادی کمانڈر اورقومی اتحادی حکومت کی ایگزیکیٹو کونسل کے نائب سربراہ محمد محقق کا کہنا ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا ھدف یہ ہے کہ وہ افغانستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات پھیلائے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے یہ تکفیری گروہ اپنے مذموم اھداف تک پہنچ سکے۔ افغانستان کے حکام کا کہنا ہے کہ افغان عوام نے اپنے اتحاد و یکجہتی سے سب سے پہلے برطانیہ کی جارح اور سامراجی فوج اور اس کے بعد روس کی سرخ فوج کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا اور بلاشک افغان عوام اتحاد و یکجہتی سے اب تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کو بھی نکال باہر کریں گے کیونکہ یہ گروہ بیرونی عناصر جیسے تاجیکوں، ازبک اور چچن کے دہشتگردوں پر مشتمل ہے۔ افغان قوم کا دہشتگردوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کے سامنے ہوشیار رہنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے آپریشن اس بات کا سبب بنے ہیں کہ دہشتگرد فرار ہو کرافغانستان آجائیں اور افغانستان میں اپنی دہشتگردی جاری رکھیں۔ ان حقائق کے پیش نظر دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی واحد راہ بھائی چارہ اور اتحاد قائم کرنا ہے تا کہ جارحین سے مقابلے کی طرح دہشتگردوں اور وہابیت کے آلہ کاروں سے مقابلے میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکے۔