Jan ۱۰, ۲۰۱۷ ۱۸:۲۳ Asia/Tehran
  • سعودی عرب یمن کے معصوم بچوں کا قاتل

سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے دس جنوری سنہ 2017 کو یمن کے علاقے نہم میں واقع ایک اسکول پر بمباری کر کے آٹھ طالب علموں کو شہید اور پندرہ کو زخمی کردیا۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت کو بائیس مہینے مکمل ہو رہے ہیں اور اس جنگ میں سعودی عرب نے انسانیت پر مظالم ڈھائے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

گیارہ ہزار سے زیادہ یمنی شہریوں کو شہید ، تیس ہزار سے زیادہ کو زخمی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کرنا اور یمن کی اسّی فیصد تنصیبات کی تباہی و بربادی اور اس ملک کو سماجی اور سیکورٹی عدم استحکام کا شکار کرنا یمن میں آل سعود کے جنگی جرائم کے واضح مصداق ہیں۔ جنگ یمن میں اس ملک کے بچوں کو جن حالات کا سامنا ہے وہ آل سعود کے بدترین جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ یمن کے بچے انتہائی مظلومیت کے ساتھ سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں کی بمباری میں شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ یونیسف نے اگست سنہ 2015 میں رپورٹ دی تھی کہ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کے صرف پہلے تین مہینوں کے دوران تین سو اٹھانوے یمنی بچے شہید اور ساٹھ زخمی ہوئے تھے۔ یونیسف نے اگست  2016 میں یعنی یہ جنگ شروع ہونے کے سولہ ماہ بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ یمن کے ایک ہزار ایک سو اکیس بچے شہید اور ایک ہزار چھ سو پچاس زخمی ہوگئے ہیں۔ یمنی مراکز نے یمنی شہیدوں اور زخمیوں کے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں،  جن میں اس ملک کے شہید اور زخمی ہونے والے بچوں کے بارے میں بھی اعداد و شمار موجود ہیں، ان کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو یونیسف نے اپنی رپورٹوں میں بتائی ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعا میں واقع حقوق اور ترقی کے قانونی مرکز نے "پانچ سو ساٹھ دنوں کی جنگ کے منفی اثرات" کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں آیا ہےکہ یمن پر سعودی عرب کے اٹھارہ مہینوں کے حملوں کے نتیجے میں دس ہزار پانچ سو باسٹھ یمنی شہری شہید ہوگئے ہیں جن میں سے دو ہزار تین سو ستانوے بچے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید آیا ہے  کہ یمن کے خلاف سعودی عرب کی پانچ سو ساٹھ دنوں کی جنگ کے دوران اٹھارہ ہزار پانچ سو آٹھ یمنی شہری زخمی ہوئے ہیں جن میں سے دو ہزار دو سو ایک بچے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہےکہ  یمن کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت میں شہید ہونے والوں میں سے تیئیس فیصد اور زخمی ہونے والوں میں سے بارہ فیصد بچے ہیں۔

یمن کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت کے دوران بچوں پر جو مظالم ہوئے ہیں وہ بچوں کے شہید اور زخمی ہونے تک محدود نہیں ہیں۔ بچوں کا شہید یا زخمی ہونا تو ایسا ظلم ہے جو صاف صاف نظر آتا ہے۔ ایسے بچوں کے ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار بیان ہی نہیں کئے جاسکتے ہیں جو اس جنگ میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک سے ہمیشہ کےلئے بچھڑ چکے ہیں اور اب ان کو اپنی ساری زندگی ان کے بغیر ہی گزارنا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم بچوں کا ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ہے لیکن اس جنگ میں کئی لاکھ بچے تعلیم کے حق سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ یمنی بچوں کو سعودی عرب کی جارحیت کی وجہ سے شدید غذائی قلت کا بھی سامنا ہے۔ یمن کے بحران میں اقوام متحدہ کے انسان دوستی پر مبنی امداد کے کوارڈینیٹر اسٹیفن اوبرائن نے اکتوبر سنہ 2016 میں کہا تھا کہ یمن کے تقریبا ایک اعشاریہ پانچ ارب بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ان میں سے تین لاکھ ستّر ہزار بچوں کی حالت بہت تشویشناک ہے اور ان کو موت کے خطرے کا دس گنا زیادہ سامنا ہے۔ تقریبا آٹھ اعشاریہ تین ملین یمنی بچوں کو صحت کی مناسب سہولتوں اور تقریبا دس اعشاریہ دو ملین بچوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

 

ٹیگس