ٹرمپ کی جانب سے نتنیاہو کو تعاون کی یقین دہانی
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نتنیاہو کے درمیان ٹیلی فونی گفتگو ہوئی جس میں ٹرمپ نے علاقے کی تبدیلیوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے کا وعدہ دیا ہے-
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ اس ٹیلیفونی گفتگو میں جواتوار کو انجام پائی دونوں فریق نے مختلف علاقائی مسائل ، منجملہ وہ چیز جسے " ایرانو فوبیا " کا نام دیا گیا ہے، کے بارے میں مشورہ کرنے پر اتفاق کیا ہے-
صیہونی حلقوں کے نقطہ نگاہ سے یہ گفتگو اوباما حکومت کے ساتھ کشیدگی کے دور کے بعد، امریکہ کے ساتھ تعلقات کے دوبارہ بحال ہونے کا سرآغاز قرار پا سکتی ہے- اس گفتگو میں ایرانو فوبیا کو محوری حیثیت حاصل تھی کہ جس پر اوباما حکومت بھی کاربند تھی لیکن وہ چیز جو ایران کے سلسلے میں امریکی پالیسی میں ایک الگ تاثر کا سبب بنی ، مشترکہ جامع ایکشن پلان ہے کہ جس نے اسرائیلی وزیر اعظم کو حیرت زدہ کردیا - ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بیانات دیئے اس سے صیہونی حکومت کو یہ امید ہوگئی کہ ٹرمپ، ایٹمی معاہدے کی مخالفت کو اپنے پروگراموں میں سر فہرست قرار دیں گے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ امریکی حکمرانوں کی پالیسی اوباما سے پہلے بھی ، ایران کے خلاف مخاصمانہ پالیسیوں پر ہی استوار رہی ہے- اور اگر اوباما کے رویے میں بظاہر کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے تو یہ درحقیقت ایران کے خلاف " بغل میں چھری منھ پر رام رام " کے مصداق ہے- ایران کو محور شرارت قرار دینا یا حالیہ برسوں میں اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جو جھوٹے تجزئے پیش کئے ، درحقیقت ایران کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ افکار کا نتیجہ ہیں - لیکن وہ چیز جس نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا ہے وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں- ایران کے ایٹمی مذاکرات میں امریکہ کی شمولیت بھی اسی حقیقت کا نتیجہ ہے- اس کے باوجود امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ایک برا سمجھوتہ بتایا ہے- البتہ بہت سے مسائل منجملہ ایران کے ایٹمی سمجھوتے کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے موقف کے حوالے سے بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے- لیکن یہ خود ایک مسئلہ ہے کہ ٹرمپ اور نتنیاہو کے بیانات کس حد تک ٹرمپ کے دور حکومت میں عملی شکل اختیار کرسکیں گے اور کیا ٹرمپ ایسی پوزیشن میں ہوں گے کہ انہوں نے نتنیاہو کو جو وعدے دیئے ہیں وہ اس کے پابند رہیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا- یہ بات مسلم ہے کہ امریکہ کے نئے صدر میں بین الاقوامی معاہدوں کو نظرانداز کرنے کی بہت زیادہ تشنگی پائی جاتی ہے لیکن ٹرمپ کے غیر سنجیدہ مواقف کے خلاف عالمی سطح پر ہونے والی تنقیدوں اور مخالفتوں کے پیش نظر امید کی جاتی ہے کہ وہ ایران کے خلاف کوئی اتحاد قائم کرنے یا اسرائیل کی وسیع حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے- توہمات سے بھری ہوئی نتنیاہو کی ایران مخالف بیان بازیاں ایسے میں جاری ہیں کہ جب اسرائیل دلدل میں دھنس چکا ہے اور نتنیاہو جتنا ہاتھ پیر مار رہے ہیں مزید دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں-
نتنیاہو کو چاہئے کہ بے بنیاد دعوے کرنے کے بجائے اپنے ماضی اور حال پر نظر کریں تاکہ شاید درک کرسکیں کہ وہ دلدل میں کتنا دھنس چکے ہیں اور کب تک اپنے فریبی ہتھکنڈوں کی بیساکھی کے سہارے آگے بڑھتے رہیں گے-
امریکہ کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے میں کہ جب بہت زیاد مشکلات میں امریکہ گھرا ہوا ہے ، عقل و منطق کا تقاضا یہ ہے کہ امریکی معاشرے کی اندرونی صورتحال اور امریکہ سے باہر کے حالات کے پیش نظر ٹرمپ حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیں اور مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کے برے نتائج کے بارے میں غور کریں - اگر ہم امریکی پالیسیوں کے نتائج کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اسرائیل حتی امریکہ کے لئے بھی ایک خطرہ شمار ہوتا ہے-