Feb ۰۲, ۲۰۱۷ ۱۵:۰۵ Asia/Tehran
  • سعودی عرب اور امریکہ دہشتگردوں کے حامی

وائٹ ہاوس نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان نے اتوار کے دن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ٹیلیفون کرکے شام اور یمن میں ممنوعہ علاقے قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ سال اپنی انتخاباتی مھم میں خلیج فارس کے عرب ملکوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ شام میں ممنوعہ علاقہ قائم کرنے کے اخراجات برداشت کریں۔

وائٹ ہاوس نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان نے اتوار کے دن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ٹیلیفون کرکے شام اور یمن میں ممنوعہ علاقے قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ سال اپنی انتخاباتی مھم میں خلیج فارس کے عرب ملکوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ شام میں ممنوعہ علاقہ قائم کرنے کے اخراجات برداشت کریں۔

امریکہ کے نئے صدر کا اپنی صدارت کے پہلے دنوں میں سعودی عرب کے حکام سے شام اور یمن کے بارے میں ٹیلیفون پر تبادلہ خیال کرنا امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت اور تسلط پسندانہ سازشوں کا جائزہ لینے کے معنی میں ہے۔ شام و یمن میں اپنی نگرانی میں نام نہاد پرامن علاقے قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کو شام ویمن میں اپنے حمایت یافتہ پٹھوؤں کی شکست فاش سے گہری تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ درحقیقت امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے نام نہاد پرامن علاقوں کی پیش کش جس کا بہانہ عوام اور آوارہ وطن افراد کی مدد کرنا ہے دراصل یہ دہشتگردوں کی حمایت اور انہیں مکمل شکست سے بچانے کا حربہ ہے۔اس طرح کے ماحول میں امریکہ نام نہاد پرامن علاقوں کی بات چھیڑ کر دہشتگردوں کی مدد کرنا چاہتا ہے اور شام کی دہشتگردی مخالف کوششوں میں خلل ڈال کر دہشتگردوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ان کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتا ہے۔امریکہ اس طرح کے بہانوں اور عوام فریبی پر مبنی سازشوں کے ‎سہارے شام و یمن میں وسیع پیمانے پر فوجی مداخلت کرنا چاہتا ہے۔ ان اقدامات سے امریکی صدر ٹرمپ کی مہم جویانہ پالیسیوں کا پتہ چلتا ہے جن کی بنا پر شام و یمن اور مجموعی طور پر پورے علاقے میں بدامنی میں شدت آجائے گی۔شام کے خلاف  امریکہ کے فوجی اور توسیع پسندانہ اقدامات جو نام نہاد  اور عوام فریبی پر مبنی پرامن علاقے قائم کرنے کے بہانوں سے جاری ہیں ان کا مقصد علاقائی ملکوں کے ٹکڑے کرنا ہے اسی وجہ سے ان پر رائے عامہ نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ شام کے تعلق سے ا مریکہ اور سعودی عرب کی پالیسیاں اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس چون کے برخلاف ہیں۔ یہ قرارداد شام کا بحران حل کرنے کے لئے سیاسی نقشہ کھینچنے کے لئے پاس کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں شام کے اقتدار اعلی، آزادی، خود مختاری، اتحاد اور ارضی سالمیت کے تحفط پر تاکید کی گئی ہے۔

یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک خود امریکہ کی سازشوں پر عمل درامد کے لئے بجٹ فراہم کرنے والے ممالک میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ دہشتگردوں کی حمایت کے لئے بڑے بڑے بجٹ فراہم کرنے نیز امریکہ کی سازشوں پر عمل درامد کرنے سے خلیج فارس کے عرب ممالک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینے کے خطروں کی بنا پر یہ ممالک سقوط و تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ بہرحال امریکہ خلیج فارس کے علاقے میں سعودی عرب سمیت اپنے دوستوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کے بہانےنیز نام نہاد پرامن علاقوں اور جنگ بندی کی سازشوں کے سہارے مختلف ملکوں میں اپنی مذموم  پالیسیوں پر عمل کررہا ہے۔ شام و یمن کا بحران نہایت پیچیدہ ہے لیکن اس بحران کی بنیاد بیرونی مداخلت ،دہشتگردوں کی مالی اور فوجی مدد اور انہیں مواقع دینا ہے۔ یہ سارے عوامل امریکہ اور عرب حکام بالخصوص سعودی عرب کی پالیسیوں میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔  

 

ٹیگس