آل خلیفہ کا مضحکہ خیز دعوی
بحرین کے ڈکٹیٹر بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے امریکہ کے یہودی خاخاموں سے ملاقات میں ایسا دعوی کیا ہے جس سے ان کی حکومت کی فریبکارانہ اور استبدادی ماہیت نیز اس حکومت کے امریکہ میں صیہونی لابی کے ساتھ آشکار و پنہاں معاملات واضح ہوجاتے ہیں۔
بحرین کے بادشاہ نے اس ملاقات میں دعوی کیا ہے کہ ان کا ملک اعتدال پسند ہے اور تمام ادیان ومذاہب یہاں پر ایک گھرانے کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔
واضح رہے کہ بحرین کے ڈکٹیٹر بادشاہ ایسے عالم میں یہ دعوی کر رہے ہیں کہ بحرین کی اکثریت جس کا تعلق شیعہ مسلمانوں سے ہے بنیادی ترین حقوق سے محروم ہے۔ بحرین کے عوام چھے برسوں سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی تحریک کی راہ میں سیکڑوں شہید، ہزاروں زخمی اور دسیوں ہزار گرفتاریاں دی ہیں اس کے علاوہ آل خلیفہ نے بحرین کے دسیوں انقلابیوں کو جلا وطن کردیا ہے اور ان کی شہریت سلب کرلی ہے۔
بحرین کی شاہی حکومت پر عوام کی اکثریت کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے متعدد مرتبہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید الفاظ میں تنقید کی ہے۔ ان تنظیموں نے آل خلیفہ کی حکومت سے کہا ہے کہ ملک کی اکثریت یعنی شیعہ مسلمانوں کو دینی آداب بجالانے کی آزادی دی جائے اور انہیں سرکاری اداروں میں ملازمتیں فراہم کی جائیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ بحرین کا بادشاہ عوام فریبی سے خاص اھداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آل خلیفہ کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ خود کو جمہوری حکومت ظاہر کرے جس میں تمام اقوام اور ادیان کے لوگ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بحرین کے حالات کچھ اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔
آل خلیفہ کی جانب سے یہ دعوی کرنا کہ وہ اعتدال پسند اور رواداری کے اصولوں پر چلنے والی حکومت ہے دنیا میں عملی طور سے مضحکہ خیز دعوی بن گیا ہے۔ اس حکومت نے اپنے ان مضحکہ خیز دعوؤں کے تحت منامہ میں سعودی عرب میں مقیم مصری قبطیوں کے لئے کلیسا تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ بحرین کی اکثریت آل خلیفہ کے فرقہ وارانہ امتیاز و تعصب سے شدید رنج و الم میں مبتلا ہے۔
یہاں تک کہ عوام نے آل خلیفہ کے ظلم سے تنگ آگر فروری دوہزار گیارہ میں تحریک شروع کردی تھی۔ اس تحریک کے شروع ہونے کے بعد آل خلیفہ نے شیعہ مسلمانوں کی اڑتیس مسجدیں منہدم کردی ہیں اور انہیں تعمیر کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی ہے۔ آل خلیفہ کی حکومت کی کارکردگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکومت نہ صرف بحرین کے عوام کے سیاسی حقوق کو پامال کر رہی ہے بلکہ انہیں دیگر حقوق جیسے دینی آزادی سے بھی محروم کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ آل خلیفہ کی حکومت بحرینی عوام پر تشدد ڈھانے اور ان کے تحریک کی سرکوبی کے لئے صیہونی حکومت سے مدد لے رہی ہے۔ آل خلیفہ اور صیہونی حکومت کے سکیورٹی تعاون کا نتیجہ ان دونوں حکومتوں کے جنوں آمیز رویے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنے عوام کی سرکوبی کے لئے آل خلیفہ کی زوال کی جانب گامزن صیہونی حکومت سے مدد لینا آل خلیفہ کی بوکھلاہٹ اور ایسے تلخ انجام کا پتہ دیتا ہے جس سے آل خلیفہ کی حکومت دوچار ہوچکی ہے۔
عرب حکام کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون بڑھانے کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک اپنی بقا کو امریکہ جیسے مغربی ممالک کی حمایت میں دیکھتے ہیں اور امریکہ بھی اسی شرط پر ان کی حمایت کرتا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے۔