شام میں ترکی کا فرات شیلڈ نامی آپرشن ختم ہوگیا
ترکی کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ شمالی شام میں سات ماہ پر محیط فرات شیلڈ نامی فوجی آپریشن ختم کر دیا گیا ہے-
ترک وزیراعظم ییلدریم نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دعوی کیا کہ شام میں ترک فوج کا آپریشن فرات شیلڈ ختم ہوگیا ہے اور شام میں ترک فوج کی مزید کارروائیاں بھی کسی دوسرے عنوان سےانجام دی جائیں گی- ترک وزیراعظم نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ ترک فوجوں کو شام سے واپس بلایا جائے گا یا نہیں - انہوں نے کہا کہ داعش یا کسی دیگر دہشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہوئی تو ترکی، کسی اور عنوان سے کارروائی انجام دے گا - ترک وزیراعظم نے یہ بیان صدر رجب طیب اردوغان کی زیر صدارت ملک کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد دیا - ترکی کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فرات شیلڈ آپریشن ترکی کی سلامتی کو یقینی بنانے کی غرض سے انجام دیا گیا تھا- بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد داعش کے خطرے کو روکنا اور شامی پناہ گزینوں کو ان کے گھروں کو واپس بھیجنا تھا- واضح رہے کہ انقرہ نے ایک ایسے وقت شام میں فرات شیلڈ نامی اپنے فوجی آپریشن کے مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے جب اس نے اس سے پہلے کہا تھا کہ یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک سبھی دہشت گردوں کا صفایا نہیں کر دیا جاتا-
ماہرین شام کی زمین پر فرات شیلڈ کاروائی کے خاتمے کے اعلان کو غور طلب قرار دے رہے ہیں- خاص طور پر ایسے میں کہ جب انقرہ کے حکام شام کی سرزمین پر فوجی مداخلت جاری رکھنے پر زور دے رہے ہیں- انقرہ حکومت نے شام میں مزید فوجی کاروائیاں جاری رہنے کے وقت اور یا فوجی آپریشن کے نام کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ سولہ اپریل کو ترکی میں آئین سے متعلق ہونے والا ریفرنڈم ، انقرہ حکومت کی اہم ترجیحات میں سرفہرست ہوگا- کیوں کہ اس ریفرنڈم میں ترکی کی حکمراں جماعت انصاف و ترقی پارٹی کے سربراہ رجب طیب اردوغان کی کامیابی کی صورت میں ترکی کی بہت سی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں، منجملہ علاقے کے ملکوں جیسے عراق اور شام کے امور میں مداخلت کے بارے میں خود ترکی کے صدرکے حکم سے عملدرآمد ہوگا- جبکہ اس وقت انقرہ حکومت کو اپنے پروگراموں پر عملدرآمد کے لئے ترکی کی پارلیمنٹ کی اجازت کی ضرورت ہے- باوجود یہ کہ ترکی کی پارلمینٹ میں انصاف و ترقی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اورعام طور پر بیرون ملک کاروائیوں کے لئے اس کو پارلیمنٹ کی اجازت مل جاتی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ اردوغان اس عمل سے راضی نہیں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ پارلیمنٹ اور خود وزیر اعظم کے اختیارات بھی ان کے اختیار میں ہوں-
مخالفین نے اس عمل کے جاری رہنے کو بہت خطرناک بتایا ہے اور ترکی کے عوام نے ایک مکمل استبدادی اور نئی ڈکٹیٹر حکومت کی تشکیل کے بارے میں خبردار کیا ہے- ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت نے دہشت گردی سے مقابلے کا دعوی کرتے ہوئے گزشتہ سال چوبیس اگست سے شام کے شمال میں شام کی حکومت کے مخالف دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے بہانے فرات شیلڈ کے عنوان سے ایک آپریشن کا آغاز کیا تھا- دمشق کی قانونی حکومت نے بارہا شام کی سرزمین پر ترک فوجیوں کی غیر قانونی موجود گی پر احتجاج کیا تھا اور انقرہ حکومت کی اس قسم کی مداخلت پسندی پر کڑی تنقید کی تھی- چنانچہ شام کی حکومت نے اگست 2016 میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام علیحدہ علیحدہ خط ارسال کرکے شمالی شام میں ترک فوج کے آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے ان کاروائیوں کو شام کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی اور انسانیت کے خلاف جارحیت قرار دیا تھا-
شام میں مارچ دوہزار گیارہ سے بدامنی کا سلسلہ جاری ہے اور بیرونی طاقتوں کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں نے قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق شام کی بدامنی میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ بشار اسد کے مخالفین منجملہ امریکہ کے حکام نے اور اسی طرح ترکی کے حکام نے بھی بشار اسد کا تختہ پلٹنے کے لئے تین ماہ کا وقت بتایا تھا لیکن شام میں جنگ اب چھٹے سال میں داخل ہوگئی ہے اور دمشق حکومت کے علاقائی اور عالمی مغرور دشمن بشار اسد کا تختہ پلٹنے میں ناکام رہے ہیں-