پاکستان میں سابق فوجی سربراہ کے خلاف احتجاج
پاکستان کے سعودی عرب کے خود ساختہ اتحاد میں شامل ہونے کے خلاف احتجاج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ادھر پاکستان کے وزیر دفاع نے دعوی کیا ہے کہ اسلام آباد، یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے تعلق سے غیر جانبدار ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایسے عالم میں یہ دعوی کیا ہے کہ حکومت اسلام آباد نے حالیہ دنوں میں باضابطہ طور پر اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے خود ساختہ فوجی اتحاد کی کمان سنبھال سکتے ہیں۔ واضح ہے پاکستانی عوام، سیاسی اور مذہبی جماعتیں یمن کی جنگ میں اپنے ملک کی مداخلت کی مخالف ہیں اوراس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ آل سعود یمن میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے اس کے باوجود راحیل شریف کو سعودی عرب کے خود ساختہ اتحاد کی فوجی کمان سنبھالنے کی اجازت دی ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کے یمن کی جنگ میں شامل ہونے کی مخالف ہے جبکہ قانون کی اساس پر پاکستان کے اعلی فوجی افسران ریٹائر ہونے کے دو برسوں تک کسی عھدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے حکومت پاکستان نے ایک جلسے میں جنرل راحیل شریف کو اس قانون سے مستثنی کیا ہے ۔
پاکستان کی سیاسی، مذہبی جماعتیں اور بعض وزرا راحیل شریف کے جنگ یمن میں سعودی عرب کے خود ساختہ فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کے مخالف ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خود وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بعض کلیدی وزرا اور فوج نے اس سلسلے میں اتفاق کیا ہے، یہ مسئلہ نواز شریف اور آل سعود کے خاندانی تعلقات اور پاکستان اور سعودی عرب کے روایتی تعلقات سے بھی متاثر ہے اور قابل توجہ ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے سابق جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے دباؤ میں آکر جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کے خود ساختہ فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان سنی کونسل کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام سعودی عرب کو اس بات کا موقع نہیں دیں گے کہ اسلام آباد کے بارے میں فیصلہ کرے۔سکیورٹی امور کے بعض حلقے دعوی کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے خود ساختہ فوجی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشتگردوں کے خلاف کامیاب کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔
یہ ایسے عالم میں ہے کہ سعودی عرب دو سال سے زیادہ کے عرصے سے یمن پر حملے کررہا ہے لیکن اسے مکمل طرح سے ناکامی ہوئی ہے اور یہ احتمال پایاجاتا ہے کہ سعودی عرب پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو جنگ یمن کی کمان سونپ کر یمن میں زمینی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے یہ بات قرین قیاس ہے۔
واضح رہے کہ نہ جنرل راحیل شریف پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف کامیاب ہوسکے ہیں اور نہ ہی وہ سعودی عرب کی فوج کے حوصلے بلند کرکے جنگ یمن میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اگرچہ سعودی عرب یہ دعوی کرتا ہے کہ دسیوں ممالک یمن کی جنگ کی حمایت کررہے ہیں لیکن عملا کوئی بھی ملک یمن میں سعودی عرب کےجرائم کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یمن پر سعودی عرب کی جارحیت میں گیارہ ہزارافراد کے جاں بحق ہونے اور دسیوں ہزار کے زخمی اور دسیوں لاکھ افراد کے بے گھر ہونےاورملک کی بنیادی تنصیبات کی تباہی کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت خود کو ایسے جرائم میں شریک کررہی ہے جن کے دلدل میں آل سعود پھنس گئی ہے۔ آل سعود کے جرائم میں اسلام آباد کی شراکت سے اسلامی ملکوں کے درمیان اسکی ساکھ بے حد خراب ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے جنگ یمن میں داخل ہونے سے پاکستان میں وہابیت کی فرقہ پرستی کی آگ بھڑک جائے گی، یہ ایسے عالم میں ہوگا کہ پہلے سے ہی پاکستان وہابیت کی لگائی ہوئی فرقہ وارانہ جنگ میں جھلس رہا ہے۔
اس امرکے پیش نظر کہ یمن کے عوام اپنے ملک میں زمینی جنگ میں مکمل مہارت رکھتے ہیں اور یقینا سعودی عرب دیگر ملکوں منجملہ پاکستان کی بری فوجوں کو بھی میدان میں لے کر اترے گا تو بھرپور شکست اس کا انتظار کرے گی اور یمن کی عوامی فورس آل سعود کے فوجیوں کو قیدی بناکر پاکستان کو شدید نقصان سے روبرکرسکتی ہیں اور اس طرح پاکستان کو نہایت بھاری قیمت ادا کرنےپر مجبور کرسکتی ہے۔