ایرانی قوم سامراج کے مقابل ڈٹی رہے گی
امریکی وزیر دفاع جمیز میٹّس نے ریاض میں اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ٹیم سعودی عرب اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کو شکست دینے کی کوشش کررہی ہے۔
میٹس نے دعوی کیا کہ ایران مشرق وسطی میں عدم استحکام پھیلانے کا کردار ادا کررہا ہے اور اس کے اثر ورسوخ کا مقابلہ کیا جانا چاہیے تا کہ اقوام متحدہ کی ثالثی سے یمن کے بحران کا کوئی راہ حل سے نکل آئے۔ امریکی وزیر خارجہ کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں امریکی حکام خواہ ریپبلیکن ہوں یا ڈیموکریٹ جس دن سے اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ہے اور اسلامی جمہوری نظام نے ایران سے امریکہ کی مداخلت ختم کردی ہے، بارہا و بارہا اس طرح کی دھمکی آمیز باتیں کرتے آرہے ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر ایرانی قوم کے خلاف تسلط پسند طاقتوں بالخصوص امریکہ کی دشمنی میں کسی طرح کا شک نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی مختلف حکومتوں کے دوران جن کے اپنے اپنے طریقے تھے ہمشیہ دشمنی جاری رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں امریکی حکام کا ہدف یہ ہے کہ وہ ایران کے تعلق سے اپنی تبدیل شدہ پالیسی کا اظہار کریں۔ ایران کے خلاف امریکہ کی پالیسیاں اب سعودی عرب کے ساتھ بٹ گئی ہیں چنانچہ امریکی وزیر جنگ نے ریاض میں اپنے مذاکرات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن اس سلسلے میں ریاض کے ساتھ تعاون کے تعلق سے نتیجہ پر پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں واقعا کوئی کام انجام دینا چاہیے اور ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کی پائداری کو تقویت پہنچانی چاہیے۔جیسا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے حلیف کی طرح کام کرتے ہیں لھذا ہمیں کوئی کام کرنا چاہیے کہ آپ اور آپ کی فوج مزید کارگر ثابت ہوسکے۔ ریاض میں امریکہ کے وزیر جنگ کے یہ بیانات اور دعوے ایسے عالم میں سامنے آئے ہیں کہ جہاں کہیں بھی مشکل ہو اور جہاں کہیں بھی ایشیا سے لے کے یورپ اور افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں وہاں امریکہ کو پایا جاسکتا ہے۔
علاقے میں امریکہ کی اسٹراٹیجی بھی واضح ہے۔ یہ اسٹراٹیجی ٹرمپ سے پہلےکے صدارتی دوروں سے کوئی خاص فرق نہیں رکھتی۔امریکہ ان خطروں سے مقابلہ کرنے کےلئے جو اس نے خود پیدا کئے ہیں علاقے کے عرب ملکوں کو ہتھیار فروخت کرنے کی کی پالیسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ آل سعود بھی روایتی طو پر ہتھیار خرید کر نیز اپنے پٹرو ڈالروں کو لٹاکر اپنی متزلزل حکومت کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس سلسلے میں یمن پر سعودی جارحیت کے لئے امریکہ کی حمایت ضروری ہے کیونکہ عملا شام و عراق میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ دہشتگرد شکست کھاچکے ہیں اور یمن میں بھی اسے کسی طرح کی کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔
سعودی عرب کے لئے اب جو راہ باقی بچتی ہے وہ امریکہ کو بے چون و چرا تاوان ادا کرنا ہے۔ البتہ ایک اور زاویہ سے جنرل میٹیس کے بیان پر نگاہ ڈالی جاسکتی ہے وہ یہ کہ امریکی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ان کے اتحادی ایران کو شکست دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکہ کی لفاظی کے مقابلے میں اسے ایران کے رد عمل کو سمجھنے کی کوشش قراردیا جاسکتا ہے۔ ہر چند وائٹ ہاوس کے حکام کو اس سلسلے میں ایران کے موقف کو جانتے ہیں اور عملا اس حتمی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ایران کی عملی اور اعلان شدہ پالیسی سپر پاورز کے مقابل ڈٹ جانا اور ان سے مرعوب نہ ہونا اور ان کی دھمکیوں سے اور علاقے میں ان کے اتحاد بنانے سے نہ ڈرنا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت ا للہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کے دن یوم مسلح افواج کے موقع پر بعض کمانڈروں سے ملاقات میں فرمایا تھا کہ نظام اسلامی کی ایک ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ ایرانی قوم بڑی طاقتوں کے نشتروں اور ناراضگی کے مقابل شجاعت اور استقامت سے ڈٹی ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بڑی اور جارح طاقتوں کے ہاتھوں میں قوموں کو مرعوب کرنے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ طعنے دے کر اور خود کو بڑا بنا کر پیش کر کے وہ اپنے مذموم اہداف حاصل کرتی ہیں اور قوموں اور حکومتوں کو اس سے مرعوب کرتی اور ڈراتی ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کو طاقتوں سے ڈرنا ہوتا اور ان کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنی ہوتی تو اب تک ایران اور ایرانی کا کوئی نام باقی نہ رہتا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے کہا کہ دشمن خواہ وہ امریکہ ہویا امریکہ سے بڑا ہو اس حکومت کے مقابلے میں جسے اپنے عوام کی حمایت حاصل ہو اور اپنے عوام کو دوست رکھتی ہو اور قوم بھی اسے دوست رکھتی ہو اور دشمن کے مقابلے میں استقامت کرتی ہوتو بڑی طاقتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں