جرمنی اور امریکہ کے درمیان لفظی جنگ میں شدت
جرمنی کے خلاف امریکہ کے نئے صدر کی ٹوئیٹ کے ذریعے الفاظ کی جنگ، برلن اور واشنگٹن کے درمیان نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں امریکہ کے ساتھ جرمنی کے اقتصادی اور فوجی تعلقات کو نقصان دہ قرار دیا ہے - ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ جرمنی کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات کبھی بھی امریکہ کے فائدے میں نہیں رہے ہیں اور جرمن حکام نیٹو کے اخراجات پورا کرنے میں حصہ نہیں لیتے- امریکی صدر نے ساتھ ہی جرمنی سے پہنچنے والے بھاری تجارتی خسارے پر بھی کڑی نکتہ چینی کی-
جرمنی کے خلاف ٹرمپ کا یہ سخت بیان ایسے میں سامنے آیا ہے کہ اس سے قبل جرمن چانسلر انگلا مرکل نے کہا تھا کہ یورپی یونین کے ممالک کو چاہئے کو اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور اس حقیقت کو درک کریں کہ اب وہ مکمل طور پر امریکہ اور برطانیہ کی حمایت پر بھروسہ نہیں کرسکتے- انہوں نے یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے تعلق سے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب پر بھی نکتہ چینی کی تھی-
امریکہ اور جرمنی کے حکام کے درمیان اس طرح الفاظ کی جنگ کی، گزشتہ برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی - برلن اور واشنگٹن نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور جرمنی کے فاشیسٹ نظام کے سرنگوں ہونے کے بعد بہت قریبی تعلقات کا آغاز کیا- اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے تمام برسوں میں بھی جرمنی میں امریکہ کے فوجیوں کی ایک تعداد تعینات تھی لیکن ساتھ ہی دونوں ملک سیاسی ، اقتصادی ، فوجی اور سیکورٹی جیسے مسائل میں دو پارٹنر کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے تھے- امریکہ ، مغرب پر قیادت اور جرمنی ، یورپی یونین پر قیادت کے دعویدار کی حیثیت سے ٹرانس اٹلانٹک سے کہیں بڑھ کر تعلقات میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے-
البتہ واشنگٹن اور برلن کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کے ساتھ ساتھ ان میں کبھی کبھی اختلافات بھی رونما ہوئے- مثال کے طور پر 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے وقت، امریکی صدرجارج بش کے دورحکومت میں اس وقت کی جرمن حکومت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا کہ جس کے ردعمل میں اس وقت کے وزیر جنگ ڈونلڈ رامسفلڈ نے یورپ کو دوحصوں ، قدیم اور جدید میں تقسیم کردیا اور یورپ کے نئے حصے یعنی براعظم امریکہ کے مشرقی ملکوں کے ساتھ واشنگٹن نے اپنے تعلقات کو تقویت پہنچائی - اس کے باوجود عراق پر امریکی حملے سے پیدا ہونے والے اختلافات کم ہونے اور جرمنی میں انگلا مرکل کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی برلین اور واشنگٹن کے تعلقات میں سدھار آگیا-
اس کے ساتھ ہی اس وقت امریکہ میں قوم پرستی کے عروج کے ساتھ ہی ، کی جس کی ڈونلڈ ٹرمپ نمائندگی کر رہے ہیں ، امریکہ اور یورپ کے درمیان ٹرانس اٹلانٹیک سے ماورا تعلقات کمزور پڑگئے ہیں- امریکہ کی موجودہ حکومت نیٹوکے دائرے میں ، یورپ کی سلامتی کے بھاری اخراجات کم کرنے کے لئے، ان اخراجات کو پورا کئے جانے کے لئے یورپ کے ملکوں کے حصے میں اضافے کی خواہاں ہے- جبکہ یورپی ملکوں منجملہ جرمنی کے نقطہ نگاہ سے امریکہ کی یہ فکر، براعظم یورپ کو سلامتی فراہم کرنے میں مدد سے، امریکہ کے فرار کے مترادف ہے- اسی بناء پر یہ بات چنداں قابل تعجب نہیں ہے کہ گذشتہ دنوں میں بریسلز اور اٹلی کے شہر سسلی میں نیٹو اور گروپ سون کے دائرے میں امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے سربراہوں کے پہلے مشترکہ اجلاس کے بعد سے ، جرمنی اور یورپ کے درمیان الفاظ کی جنگ شدت پکڑگئی ہے-
بعض علامتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بحر اٹلانٹک کے دونوں طرف قوم پرستانہ رجحانات میں کمی نہیں آتی تو پھر یورپ سے امریکہ کی علیحدگی کے عمل کا آغاز ہوجائے گا- اور یہ ایک ایسا عمل جو ممکن ہے برطانیہ سے امریکہ کے قریب ہونے اور روس سے یورپ کے قریب ہونے پر منتج ہوجائے-