میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا صفایا جاری
میانمار میں روہنگیا خاص طور پر صوبہ راخین کے مسلمانوں کا صفایا جاری رکھنے کا عمل جاری ہے اور اس ملک کی پارلیمنٹ کے اراکین نے روہنگیائی مسلمانوں سے مقابلے کے لئے مزید نئے دیہی علاقوں کی تعمیر کا مطالبہ کیا ہے-
روہنگیا کے مسلمانوں کی اکثریت میانمار کے مغرب میں واقع صوبہ راخین میں زندگی گزارتی ہے- میانمار کے اراکین پارلیمنٹ ایسی حالت میں صوبہ راخین سے روہنگیائی مسلمانوں کے نکالے جانے پر زور دے رہے ہیں کہ ہزاروں سال قبل سے اراکان کے عنوان سے یہ علاقہ روہنگیائی مسلمانوں کے آباء و اجداد کے سرزمین رہا ہے اور تین سوسال سے زیادہ عرصے تک اس پر مسلمانوں کی شاہی حکومت تھی لیکن ساٹھ کی دہائی سے میانمار میں فوج کے اقتدار میں آنے کے بعد سے روہنگیا مسلمانوں پر دباؤ سرکاری طورپر شروع ہوگیا اور بودھ مت کے انتہا پسند راہبوں منجملہ آشین ویراتو کے ذریعے مشتعل کرنے اور ترغیب دلانے کے ذریعے اس میں شدت لائی گئی ہے- چنانچہ دوہزار بارہ سے انتہا پسند بودھوں کے خونریز حملوں میں ایک ہزار سے زائد مسلمان قتل کئے گئے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد افراد پڑوسی ملکوں میں فرار کرگئے اور بے گھر ہوگئے ہیں-
میانمار میں نسلی قتل عام پر عالمی ردعمل کے پیش نظرروہنگیا مسلمانوں کے صفایا کرنے کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے اور اب سرکاری و مقامی حکام نئے دیہاتوں کی تعمیر کے ذریعے ان کی سرزمینوں پر قبضہ کرنے کے درپے ہیں- اور یہ ایک پالیسی ہے کہ جس کا میانمار کی پارلیمنٹ میں سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے- میانمار کے سرحدی امور کے مشیر جنرل "تان ہتات" کے بقول صوبہ راخین کے مختلف علاقوں منجملہ بوتیدانگ اور مانگداو میں چھتیس گاؤں تعمیر کئے گئے ہیں اور اس ملک کی حکومت کی کوشش ہے کہ غیر مسلموں اور مختلف اقوام کو یانگون کے علاقے سے ان علاقوں میں منتقل کردیں تاکہ صوبہ راخین کی آبادی کا تناسب درھم برھم ہوجائے اور روہنگیا کے مسلمان اقلیت میں آجائیں- بوتیدانگ اور مانگداو میں اکتوبر دوہزار سولہ سے فروری دوہزار سترہ تک انتہا پسند بودھشٹوں نے مسلمانوں پر خونریز حملے کئے- واضح رہے میانمار کے انتہا پسند بڈھسٹ سنہ دو ہزار دو سے مسلمانوں کو صوبہ راخین میں مکمل طرح سے تہس نہس کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
اس امر کے پیش نظر کہ علاقے اور عالمی سطح پر میانمار میں مسلمانوں پر بودھوں کے ظلم و ستم پر سخت رد عمل دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے، علاقائی اور عالمی برادری کے اس مطالبے کے بعد میانمار کی حکومت اور مقامی حکام نے مسلمانوں کو ان کے وطن سے نکالنے کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے تلاش کرلئے ہیں اور وہ نئی نئی چالوں سے انہیں ملک سے نکال رہے ہیں اور ان سے زبردستی نیا ٹیکس لے رہے ہیں البتہ یہ اقدام مسلمانوں کے خلاف ان کے اقدامات میں سے آخری نہ ہوگا بلکہ روہنگیا مسلمانوں پر طرح طرح سے دباؤ جاری رہے گا، روہنگیا مسلمانوں پر بچوں کی تعداد معین کرنے کے سلسلے میں بھی دباؤ ہے۔
یاد رہے میانمار کے روہنگیا مسلمان عام طور سے غریب ہیں اور زراعت کرکے اپنی گذر اوقات کرتے ہیں۔ صوبہ راخین میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ ہمیشہ سے بودھوں کے ساتھ پرامن زندگی گذارتے آئے ہیں اور دونوں قومیں ایک دوسرے کے مذہب و آئین اور آداب کا احترام کرتی آئی ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں انتہا پسند بودھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بھرپور منفی پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے تا کہ ان کے خلاف بودھوں کو بھڑکائیں اور مسلمانوں کو ایذا و اذیت پہنچا کر انہیں ملک سے نکال دیں۔
اسی ھدف کے لئے انتہا پسند بودھ لیڈر آشین ویراتو نے نو سو انہتر نامی ایک دہشت گرد گروہ تشکیل دیا ہے تا کہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا جاسکے۔ ہرچند علاقائی اور عالمی حلقوں نے ہمیشہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بودھوں کے مظالم کی مذمت کی ہے لیکن اس ظلم وستم کو روکنے کےلئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے۔ اسی وجہ سے انتہا پسند بودھوں اور فوج اور سرکاری حکام مسلمانوں کے خلاف جرائم اور ان کے اموال لوٹنے میں زیادہ گستاخ ہوگئے ہیں۔