Jun ۱۳, ۲۰۱۷ ۱۸:۲۸ Asia/Tehran
  • عالم عرب میں گہری خلیج پیدا ہونے پر امیر کویت کو تشویش

عالم عرب میں بحران جاری رہنے کے ساتھ ہی امیر کویت نے خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی جاری رہنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے دوحہ اور ریاض کے درمیان اختلافات جاری رہنے کی بابت خبردار کیا ہے-

امیر کویت شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے پیر کے روز کویت میں بعض عرب سیاسی شخصیات کے ساتھ ملاقات میں، خلیج فارس تعاون کونسل کے ممبر ملکوں کے درمیان سیاسی بحران کے حل کے مقصد سے ثالثی کے لئے اپنے دورہ سعودی عرب ، قطر اور متحدہ امارات کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کونسل کے بعض اراکین کے درمیان اختلافات کا جاری رہنا مناسب نہیں ہے اور ان اختلافات کے خطرناک مرحلے تک پہنچنے سے پرہیز کرنا چاہئے- 

خلیج فارس تعاون کونسل کو اس کے قیام کے وقت سے یعنی 1981 سے اب تک موجودہ بحران جیسے حالات کا سامنا نہیں ہوا تھا اور اس وقت جو نئے اختلافات ان ممالک کے درمیان ابھرکرسامنے آئے ہیں ان سے عالم عرب کے درمیان گہری خلیج پیدا ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے- خلیج فارس کونسل کے تین رکن ممالک یعنی سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین، اس کونسل کے ایک رکن ملک یعنی قطر کے ساتھ شدید سیاسی بحران سے دوچار ہیں- کویت اور عمان  خلیج فارس تعاون کونسل کے دو رکن ملک کی حیثیت سے اس کوشش میں ہیں کہ ان کے درمیان ثالثی کے ذریعے، اس کونسل کے رکن ملکوں کے درمیان اختلافات کو حل کریں یا ان میں کمی لائیں-

سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر نے علاقے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کی، قطر کی جانب سے حمایت کے بہانے اور اس لئے کہ دوحہ، مجموعی طور پر عرب  بہاؤ سے ہم آہنگ نہیں ہے ، قطر کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرلئے ہیں- ان ملکوں نے اسی طرح قطر کے لئے اپنی زمینی اور فضائی اور سمندری حدود بھی بند کردی ہیں تاکہ اس پر مزید دباؤ ڈال سکیں اور بقول ان کے، آخرکار دوحہ اپنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائے-

خلیج فارس تعاون کونسل کے بحران اور خاص طور پر سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدگی کے باعث جو ایک اہم سوال ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ آیا یہ بحران علاقائی سطح پر تیار کیا گیا ہے یا نہیں بیرونی طاقتوں کا تیار کردہ  ہے ؟ اس بات سے قطع نظر کہ یہ بحران کہاں تیار کیا گیا ، وہ چیز جو اہم ہے یہ ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکوں کےدرمیان کشیدگی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے اور اسی سلسلے میں ایران کی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی  اور شمالی افریقہ کے امور کے سربراہ حمید رضا دہقانی کا خیال ہے کہ اس کونسل میں اختلاف اپنے عروج پر ہے اور اس کی اصلی وجہ بھی سعودی عرب کی پالیسی ہے کہ جسے توقع ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے تمام ممبر ممالک اس کی بات مانیں اور اس کے زیر نظر کام کریں- 

سعودی عرب برسوں قبل سے اس امر کے درپے  ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کو، اپنی سربراہی میں عرب اتحاد کے نام سے تبدیل کردے جبکہ قطر جیسا ملک اپنی خارجہ پالیسی میں اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ وہ اس ملک کو جسے سعودی عرب، عربوں کے مشترکہ دشمن کے طور پر متعارف کرا رہا ہے اس کی تائید کرے- چنانچہ رواں ماہ مئی کے اواخر میں اسی سلسلے میں ریاض میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا کہ جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی - ٹرمپ نے اس اجلاس میں ایران مخالف پروپگنڈہ کے ذریعے سعودی عرب کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن قطر کی خودمختار پالیسی نے ایک بار پھر سعودی عرب کے اتحاد کی تشکیل کی کوششوں کو نقش بر آب کردیا- 

سعودی عرب کو علاقے میں اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں صیہونی حکومت اور بعض دیگر ملکوں کی حمایت حاصل ہے-  امریکہ اور اسرائیل علاقےمیں سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ علاقے میں سعودی عرب کے ذریعے اپنے اہداف تک پہنچ سکیں- اسی سلسلے میں عالم عرب کی سیاسی مسائل کی ماہر " رائع صالحہ"  نے کچھ دنوں قبل القدس العربی جریدے میں لکھا کہ قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی وجوہات صرف وہی نہیں ہیں کہ جن کا ذکر کیا گیا ہے مثلا اسلامی گروہوں کی حمایت کرنا اور یا ایران کے ساتھ رابطہ، بلکہ قطر اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی کچھ دیگر بنیادی وجوہات بھی ہیں کہ جو اسرائیل سے متعلق ہیں اور اس وقت قطر پر سعودی عرب کی جانب سے حد سے زیادہ دباؤ اسرائیل سے بہت زیادہ متاثر ہونے کا نتیجہ ہے-            

ٹیگس