سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری
سعودی عرب میں آل سعود نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئےالقطیف شہر میں چار شہریوں کو سزائے موت دے دی ہے۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے ایک بیان جاری کر کے کہا ہے کہ چار افراد کو منگل کے دن دہشت گردانہ کارروائی انجام دینے کے الزام میں موت کی سزا دے دی گئی ہے۔
سعودی حکام آزادی بیان اور پرامن مظاہروں جیسے بنیادی حقوق اور آزادی سے متعلق سخت قوانین اور سزاؤں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دریں اثناء سعودی عرب کی اپیل کورٹ نے بھی سنہ دو ہزار چودہ سے قید اور تشدد کا سامنا کرنے والے شیعہ جوان کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔ سعودی عرب، انسانی حقوق کونسل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کی جانے والی تنقید کے مقابلے میں سزائے موت دینے اور طویل مدت تک قید میں رکھنے کے لئے سیکورٹی مسائل کو بہانہ بناتا ہے۔
آل سعود حکومت نے تقریبا ڈھائی برس قبل دہشت گردی کا مقابلہ نامی ایک قانون منظور کیا تھا اور اسی زمانے سے اس نے دہشت گردی کے مقابلے کے بہانے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ یہ حکومت سعودی شہریوں کو کچلنے پر مبنی اپنے اقدامات کے لئے بھی قانونی جواز گھڑنے کے درپے ہے۔
سعودی عرب کے حالات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد سے اس ملک میں تشدد آمیز پالیسیوں اور مخالفین کو سزائے موت دینے کے سلسلے میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں جنوری سنہ دو ہزار سولہ کو سب سے زیادہ اجتماعی سزائے موت دی گئی ۔ اس دن سینتالیس قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔ واضح رہے کہ دو جنوری سنہ دو ہزار سولہ کے دن سعودی عرب کے ممتاز مجاہد عالم دین شیخ نمر باقر النمر کو دوسرے چھیالیس افراد کے ساتھ سزائے موت دی گئی تھی۔
حالیہ برسوں کے دوران خارجہ اور داخلہ پالیسی میں آل سعود کی انتہاپسندی میں آنے والی شدت کا سبب یہ ہے کہ اس ملک میں وہابی پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں اور یہ چیز اس ملک کا اقتدار شاہ سلمان کے ہاتھ میں جانے کے بعد زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔
سعودی عرب کے بادشاہ نے حکام کو معزول اور مقرر کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے چار افراد کو اپنا نیا مشیر بنایا ہے۔ ان میں سے دو افراد کا تعلق آل شیخ کے ساتھ ہے ۔ ان افراد کا سلسلہ نسب گمراہ اور باطل وہابی فرقے کے بانی محمد بن عبدالوہاب تک جا پہنچتا ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران شاہ سلمان نے سیاسی میدان میں بہت زیادہ تبدیلیاں کی ہیں۔ جن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شاہ سلمان نے اقتدار پر زیادہ سے زیادہ قبضہ جمانے اور ملک کو وہابیت اور فرقہ پرستی کے راستے میں آگے بڑھانے کے لئے اپنے اقدامات تیز کر دیئے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کے غیر معقول، مداخلت پسندانہ اور انتہاپسندانہ اقدامات میں بھی تیزی پیدا ہوئی ہے۔
آل سعود کو کبھی بھی اپنے ملک کے عوام میں مقبولیت حاصل نہیں رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آل سعود حکومت وہابی عقائد و نظریات سے متاثر ہونے کے سبب کبھی بھی شہری حقوق، انسانی حقوق اور جمہوریت کی قائل نہیں رہی ہے۔ یہ حکومت اس ملک کے اہل تشیع سمیت مختلف طبقات کو کچلنے پر مبنی اپنے اقدامات میں شدت پیدا کر کے دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی سب سے بڑی حکومت شمار ہوتی ہے۔
عرب ممالک کے امور کے ماہر حسن شقیر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ سعودی حکومت اپنے ملک کے اہل تشیع کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ حسن شقیر عوامیہ کے علاقے میں آل سعود حکومت کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں ہے کہ سعودی حکومت کے اس طرح کے اقدامات ملک بھر سے متعلق اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس وقت یہ حکومت اہل تشیع کو ظلم کا نشانہ بنا رہی ہے اور اہل تشیع کی اکثریت اس ملک کے مشرقی علاقوں میں آباد ہے ۔ اہل تشیع کو بہت ہی کٹھن حالات کا سامنا ہے اور وہ آل سعود کے ظالمانہ فیصلوں کی زد پر ہیں۔