ایران کی میزائل طاقت کے بارے میں مذاکرات نہیں کریں گے: میجر جنرل محمد باقری
ایران کے چیف آف آرمی اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے پیر کے روز ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد مقدس میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بری فوج کے کمانڈروں کے اجلاس سے اپنے خطاب میں تاکید کے ساتھ کہا کہ ایران کی میزائل توانائی و طاقت دفاعی نوعیت کی ہے جس کے بارے میں ہرگز کسی بھی طرح کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ایران نے دشمن سے لاحق خطرات کے مقابلے میں اپنی دفاعی توانائی و طاقت اور آمادگی کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران نے اپنے بل بوتے پر دفاعی طاقت و توانائی کو فروغ دیتے ہوئے اپنی سرحدوں کے تحفظ اور تکفیری دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے میں مزاحمتی ملکوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کو مثالی امن کا تحفہ پیش کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائل صلاحیت اب دفاعی شعبے میں معمول کی ایک اسٹریٹیجک صلاحیت بن چکی ہے اور اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کی ایک بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ایران علاقے میں بدامنی پھیلانے والوں کے مقابلے میں دفاع حتی جارحانہ اعتبار سے ڈٹ جانے کی بھرپور توانائی رکھتا ہے۔ ایران نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر خطرے کا پوری طاقت کے ساتھ جواب دے گا۔ سات جون کو تہران میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے اسی سلسلے کی ایک آزمائش تھے۔ ان کا مقصد ایران کی دفاعی طاقت کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنا تھا۔ لیکن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اس کا دندان شکن جواب دیا اور ایران کی سرحدوں سے چھ سو پچاس کلومیٹر دور شام میں واقع دیر الزور کے علاقے میں دہشت گرد گروہ داعش کے ہیڈکوارٹر پر میزائل داغے جس سے دشمن کے اندازے نقش برآب ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اس اقدام سے ثابت ہوگیا کہ ایران سلامتی کے سلسلے میں کسی سے رو رعایت نہیں کرے گا اور سلامتی ایران کی ریڈ لائن شمار ہوتی ہے۔
ایران اپنی دفاعی طاقت کو جتاتا نہیں ہے ، نہ وہ کسی ملک کے لئے خطرہ ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اگر اس کے لئے خطرہ پیدا ہوجائے اور وہ اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور خطے کو بدامنی کا سامنا ہے تو وہ اس خطرے کے مقابلے کے سلسلے میں ایک لمحے کے لئے بھی شک نہیں کرے گا۔
اگر خطے اور ایران میں بدامنی پھیلانے پر مبنی امریکہ اور خطے کے بعض ممالک کی سازشوں اور ان کے اہداف پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایران کی میزائل دفاعی صلاحیت اور اس تیاری کی اہمیت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔ امریکہ نے حالیہ ایک عشرے کے دوران عملی طور پر ایران کے لئے سیکورٹی مشکلات پیدا کی ہیں اور اس نے خطے خصوصا شام، یمن اور عراق میں سعودی عرب کے ذریعے پراکسی وار شروع کر کے ایران کے آس پاس بدامنی پیدا کر دی ہے اس ذریعے سے وہ خطے کے اجتماعی استحکام میں ایران کے کردار کے آگے سوالیہ نشان لگانے کے درپے ہے۔ لیکن امریکہ کو اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ شام اور عراق کی صورتحال میں ایران کے موثر کردار کی وجہ سے علاقائی امور میں ایران کا بلند مقام ثابت ہوگیا۔ یہاں تک کہ امریکہ کے حکام اور سیاسی مبصرین کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ ایران بلاشرکت غیر علاقے کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔
امریکہ کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ (Hudson Institute)نے اپنے ایک تجزیئے میں ایران کی طاقت کا ذکر سات ممالک یعنی امریکہ، چین، روس، جاپان، جرمنی، ہندوستان اور سعودی عرب کے ساتھ دنیا میں آٹھویں ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر کیا ہے۔ اگرچہ یہ بات ایرانوفوبیا اور خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو خطرہ ظاہر کرنے کے تناظر میں کہی گئی ہے لیکن بہرحال اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں امریکہ کی توسیع پسندی اور اس کے ناجائز مقاصد کی راہ میں رکاوٹ شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ طاقتور اسلامی جمہوریہ ایران کو برداشت نہیں کرسکتا ہے۔
ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ اس نے اپنی طاقت سے ہمیشہ خطے میں قیام امن اور اس کے استحکام کے لئے فائدہ اٹھایا ہے اور اس نے علاقائی ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے بجائے ان کو جارحیت، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے مقابلے میں مدد فراہم کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ علاقائی بحران پر قابو پانے میں ایران کی بے مثال کامیابیوں اور دفاعی میدان میں اس کی عظیم صلاحیت کو امریکہ اس علاقے سے متعلق اپنے اندازوں میں پیش نظر رکھتا ہے۔ البتہ ایران کی میزائل صلاحیت کے بارے میں امریکہ غلط طور پر یہ تصور کرتا ہے کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر کے ایران کو اصولی مواقف اور میزائل صلاحیت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بڑی طاقت ہونے کا تقاضا استحکام اور قیام امن میں مدد دینا بھی ہے اور علاقے میں ایران کی دفاعی کارکردگی اسی خصوصیت کی حامل ہے۔