Sep ۲۸, ۲۰۱۷ ۱۵:۳۴ Asia/Tehran
  • مشترکہ جامع ایکشن پلان کی بنیاد اعتماد نہیں ہے

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے نیویارک میں امریکی تھنک ٹینک ایشیا سوسائٹی (Asia Society) میں مشہور امریکی اینکر پرسن چارلی روز (Charlie Rose ) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدہ اعتماد کی بنیاد پر انجام نہیں پایا ہے اور ایران کو امریکہ پر اعتماد نہیں ہے۔

محمد جواد ظریف نے مزید کہا کہ امریکہ کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں اپنے فیصلے کے اعلان کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہے کہ عالمی برادری واشنگٹن پر اعتماد کر سکتی ہے یا نہیں۔

محمد جواد ظریف نے کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہونے کی صورت میں ایران حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری فیصلے کرے گا۔

امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی حالیہ تقریر کے دوران گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے یعنی مشترکہ جامع ایکشن پلان کو امریکہ کے لئے باعث شرم قرار دیا ہے جبکہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد اپنی آٹھ رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ ایران نے اس معاہدے میں مندرج اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے حتی امریکی حکام بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ابھی کل ہی امریکی آرمی کے چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف (Chairman of the Joint Chiefs of Staff) جنرل جوزف ڈنفورڈ (Joseph Dunford) نے کہا ہے کہ جن معاہدوں پر ہم نے دستخط کئے ہیں اگر ہم ان کی پابندی کریں گے تو دوسرے فریق ہمارے ساتھ معاہدے کرنے کی جانب مائل ہوں گے۔ اس امریکی فوجی عہدیدار نے واضح کیا کہ امریکہ کی انٹیلی جنس کمیونٹی بھی اس بات کی قائل ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے۔

ٹرمپ کو عہدہ صدارت سنبھالے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اور انہوں نے دنیا والوں کے لئے ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کرنا یا کسی معاہدے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو ان کو امریکہ کے وعدوں اور اس کی باتوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ اب صرف ایران ہی نہیں ہے جو امریکہ پر عدم اعتماد کی بات کرتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک پر ثابت ہوچکا ہےکہ امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر عملدرآمد کے سلسلے میں وعدہ خلافی کی۔ وہ ماحولیات سے متعلق مختلف کنونشنوں سے خارج ہوا اور اس نے سیکڑوں وعدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے حتی اس نے امریکہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔ امریکہ کے مشہور مفکر اور فلسفی نوام چامسکی نے امریکہ کےہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ بہت سے امریکی عوام اپنے حکام کی وعدہ خلافیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام کو حکومتی نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ ( University of Maryland) نے سنہ دو ہزار سولہ میں ایک سروے کرایا تھا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ ایرانی عوام شروع سے ہی اس بات کی توقع نہیں رکھتے تھے کہ امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں درج اپنے وعدوں پر عمل کرے گا۔ اس سروے میں حصہ لینے والے تقریبا باسٹھ فیصد افراد نے کہا تھا کہ امریکہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کےتحت جو وعدے کئے ہیں ان پر وہ بالکل عمل نہیں کرے گا۔ امریکی رویئے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بدھ کے دن ایسوسی ایٹڈ پریس کوانٹرویو دیتے ہوئے صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جو پیغام دنیا والوں کو دے رہا ہے یہ ہے کہ جب تم امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہو تو امریکی حکام مذاکرات کے دوران طے پانے والے امور کو بدیہی اور واضح فرض کرلیتے ہیں پھر پانچ یا چھ ماہ گزرنے کے بعد یا ایک ، دو سال کے بعد دوبارہ تمہارا رخ کرتے ہیں تاکہ جن چیزوں کو مذاکرات میں حاصل نہیں کرسکے ہیں ان کا تم سے مطالبہ کریں۔

محمد جواد ظریف نے کہا کہ یہ دنیا کے لئے ایک اچھا پیغام نہیں ہے اور اس سے ثابت ہوجائے گا کہ مذاکرات کرنے کے لئے امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے اور امریکہ جیسی طاقت کا دنیا کے لئے یہ ثابت کرنا،  کہ مذاکرات کے دوران اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔

ٹیگس