عراقی کردستان کا ریفرنڈم، علاقے میں نئے اسرائیل کے وجود کا پیش خیمہ
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی رات کو ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات میں، عراقی کردستان کے علاقے میں ریفرنڈم کے انعقاد کے تعلق سے فرمایا کہ امریکہ اور بیرونی طاقتیں ناقابل اعتماد ہیں اور وہ علاقے میں ایک نیا اسرائیل وجود میں لانے کے درپے ہیں-
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےعراقی کردستان کے علاقے میں ریفرنڈم کو خطے سے غداری اور نئے خطرات پیدا کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکی کو ایسے تمام اقدامات کا مقابلہ کرنا چاہئے بالخصوص عراق کی مرکزی حکومت بھی اس مسئلے کے حوالے سے سنجیدگی سے کام کرے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کردستان کے مسئلے پر امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں ایران اور ترکی کا مشترکہ مؤقف یکسر مختلف ہے، جبکہ امریکہ ہمیشہ ایک مخصوص مسئلے کو ایران اور ترکی کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اس لئے امریکہ اور یورپی ممالک اور ان کے مواقف پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا.
اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی عراقی کردستان کے علاقے کی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کے سخت مخالف تھے اور ان دونوں ملکوں نے اس ریفرنڈم کے انعقاد کے مہینوں قبل سے ہی اپنی مخالفت کا کھل کر اعلان کردیا تھا- تہران اور انقرہ نے اس وقت بھی عراقی کردستان کے علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی کے توسط سے ریفرنڈم کرائے جانے کی مذمت کی ہے اور یہ دونوں ملک ریفرنڈم کو، کردوں کے اعلی مفادات نیز عراق بلکہ پورے علاقے کے امن و ثبات کے لئے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں- ایران اور ترکی کے درمیان مختصر ملاقاتوں کا ایک اہم مقصد، عراقی کردستان کے علاقے میں انجام پانے والا ریفرنڈم ہے اور اسی سلسلے میں ترکی کے صدر نے اپنے دورہ تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات کی اور اس مسئلے کے بارے میں متفقہ اقدامات کےبارے میں تبادلۂ خیال کیا -
اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کو تہران میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کا اصل مقصد علاقے میں امن و استحکام کا قیام اور سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے- حسن روحانی نے شام کے بحران اور عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے حکام کی غیر قانونی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی، علاقے کی جغرافیائی سرحدوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو برداشت نہیں کریں گے- انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران اور ترکی، علاقے میں تقسیم اور قومی و مذہبی اختلافات کو اغیار کی کوششوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں، کہا کہ دونوں ہی ملکوں کا موقف ہے کہ عراق اور شام کی ارضی سالمیت کا تحفظ ہونا چاہئے-
مغربی ممالک خاص طور پرامریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے موقف سے، کہ جو عراقی کردستان کے ساتھ تیل کی خریداری کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ممالک کردستان میں ہوئے ریفرنڈم کے مخالف نہیں ہیں- اگرچہ امریکہ اور یورپی ممالک، اپنی اعلان کردہ پالیسی میں متحد عراق پر تاکید کرتے ہیں پھر بھی ان ملکوں نے ریفرنڈم کو مسترد نہیں کیا ہے اور وہ ایسی راہ میں قدم بڑھا رہے ہیں کہ جس پر اسرائیل گامزن ہے- اسی سلسلے میں لبنان کی العہد ویب سائٹ نے محمد علی جعفری کا تحریر کردہ ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کے حالات کے پیش نظر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ علاقے میں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو علاقے میں اسرائیل کے مفادات کی ضامن ہو- عراقی کردستان کے علاقے کے ساتھ صیہونی حکومت کے اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم ہیں اور ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ عراقی کردستان کی علیحدگی کا منصوبہ بھی اسی دائرے میں ہے- دوسری جانب یہ مسئلہ، مسئلہ فلسطین سے بھی توجہات کم کرنے کا باعث بنا ہے-
عراق سے کردستان کے علاقے کو علیحدہ کرنے کی اسرائیلی پالیسی اور مطالبے کے پیش نظر، تہران میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ امریکہ، فرانس اور اسرائیل مشرق وسطی کے حصے بخرے کرنے کے درپے ہیں اوروہ اس قسم کی صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور شام کیلئے بھی ان کی یہی سوچ ہے اس لئے اس سلسلے میں ایران اور ترکی کی جانب سے متفقہ اور متحدہ فیصلہ بہت ہی اہم ہے ۔
عراق سے کردستان کی علیحدگی کے لئے صیہونی حکومت کی آشکارہ حمایت اور اس سلسلے میں امریکہ کے دوہرے موقف سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ایک صیہونی - امریکی منصوبہ ہے اور وہ عراق اور شام جیسے بڑے ملکوں کو چھوٹے ملکوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں- جیسا کہ رجب طیب اردوغان نے رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ نا قابل انکار حقائق و شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے مابین کردستان کے مسئلے پر ایک سمجھوتہ طے پا گیا ہے اور مسعود بارزانی نے ریفرنڈم کراکے بہت بڑی غلطی کی ہے جو ناقابل معافی ہے۔