سعودی عرب حریری سے متعلق وضاحت پیش کرے: لبنان
لبنان کے صدر میشل عون نے سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ وہ سعد حریری کی سرنوشت اور ان کی سعودی عرب سے لبنان واپسی میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔
میشل عون نے ہفتے کے روز کہا کہ لبنان کو یہ بات قبول نہیں ہے کہ اس کا وزیر اعظم ایسے حالات سے دوچار ہو جو بین الاقوامی معاہدوں کے منافی ہیں۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کے غیر متوقع اور مشکوک استعفے کو ایک ہفتے کا عرصہ گذرنے کے ساتھ ہی ان کی سرنوشت بدستور مبہم ہے اور یہ مسئلہ لبنانی حکام کی تشویش کا باعث بنا ہے۔ یاد رہے کہ لبنانی وزیر اعظم سعد حریری نے گذشتہ دنوں سعودی عرب سے اپنے ایک بیان میں اپنا استعفیٰ دیا تھا، استعفے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ ان کے والد رفیق حریری کی طرح انہیں بھی قتل کردیا جائے گا، اسی لئے وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہورہے ہیں۔
بہت سے لبنانی حکام اور میڈیا حلقوں کا خیال ہے کہ سعد حریری نے یہ استعفی سعودی عرب کے دباؤ میں آکر اور آل سعود کے توسط سے پیدا کئے گئے خاص حالات کے تحت دیا ہے۔ لبنان کے خلاف سعودی عرب کے تیار کردہ منصوبے سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ سعودی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سعد حریری کو اپنے عہدے سے ہٹ جانا چاہئے کیوں کہ ان میں حزب اللہ سے مقابلے کی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل سعد حریری کا یہ موقف کہ تحریک حزب اللہ سے مقابلہ لبنان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے، سعودی حکام کے مزاج پر گراں گذرا ہے، اس لئے وہ لبنان کے سیاسی میدان سے ان کا پتہ صاف کرنے کے درپے ہیں۔
اپنے اس دورۂ سعودی عرب میں سعد حریری کا یہ کہنا کہ سعودی حکام ان سے اس چیز کے سبب، کہ جو ان کی قوت و اقتدار سے باہر ہے، مواخذہ نہ کریں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ آل سعود کے شدید دباؤ میں ہیں۔ جیسا کہ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعد حریری نے سعودی عرب کے شدید دباؤ میں استعفی پیش کیا ہے کیونکہ سعودی عرب کے لبنان میں کچھ اہداف ہیں جن کو سعد حریری پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام رہے جس کے بعد سعودی عرب نے ان پر استعفی پیش کرنے کے لئے دباؤ ڈالا اور انہوں نے بھی سعودی عرب میں ہی استعفی پیش کردیا اور جو کچھ سعودی عرب ان سے کہلوانا چاہتا تھا وہ سعد حریری نے کہہ دیا۔
کیا سعودی عرب کے اندرونی اور آل سعود شہزادوں کے اختلافات لبنانی وزیر اعظم کے استعفی کا موجب بنے؟ لبنان کے وزیر اعظم کا سعودی عرب میں مستعفی ہونا لبنانی عوام اور لبنانی حکومت کی شان کے خلاف ہے۔ سعد حریری کو غیر ملکی عناصر اور سعودی عرب کے بادشاہ اور ولیعہد نے مستعفی ہونے پر مجبور کیا ہے۔ مجموعی طور پر حریری کی گرفتاری سو فیصد بین الاقوامی قوانین اور کنونشن نیز لبنان کے بنیادی آئین اور لبنانی قوم کی توہین ہے کیوں کہ لبنان کے سیاسی معاشرے نے عوام کی نمائندگی میں حریری کا انتخاب کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ حقیقت بہت جلد یا کچھ دیر سے سامنے آجائے گی ۔
سعودی عرب امریکی، اور اسرائیلی اتحاد کا حصہ ہے اور اس اتحاد کے پاس مکر و فریب اور جھوٹ کے علاوہ کوئی بات نہیں ہے ظلم و بربریت ان کی خصلت بن چکی ہے امریکی و سعودی اتحاد اپنے علاوہ کسی کو جینے کا حق نہیں دیتا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب نے دنیا کی توجہ لبنان کے وزیر اعظم کی طرف مبذول کرکے چالیس سے زائد سعودی شہزادوں کو گرفتار کرلیا ہے سعودی عرب کو اندرونی اور بیرونی سطح پر سخت شکست کا سامنا ہے۔ ملک سلمان اور محمد بن سلمان کب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ رقص کریں گے آخر ان کو بھی اپنے کرپشن اور عراق و شام و یمن میں اپنے مظالم کا حساب دینا پڑےگا۔
سعودی عرب ہمیشہ سے اس کوشش میں رہا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف الزامات عائد کرکے اور لبنان کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان پھوٹ ڈال کراس ملک میں اپنے مداخلت پسندانہ اہداف کو حاصل کرے۔لبنان میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب سعد حریری کا سیاسی میدان سے خاتمہ کرنے کے ساتھ ہی لبنان میں سیاسی خلاء وجود میں لانے اور اس ملک کو سیاسی بحران سے دوچار کرنے کے درپے ہے۔ایسے حالات میں سعودی حکام حریری کو گھر میں نظر بند کرکے اس کوشش میں ہیں کہ ان کے بڑے بھائی کو المستقبل پارٹی کا سربراہ بناکر، اس پارٹی کو لبنان میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کریں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ لبنان کی صورتحال سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ آل سعود کہ جو تصور کر رہی تھی کہ سعد حریری کے سیاسی اغواء کے ذریعے وہ لبنان کے شیعہ اور سنی بھائیوں کو آپس میں دست بگریباں کر سکتی اور خانہ جنگی کراسکتی ہے، اس کے تصور کے برخلاف ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس وقت لبنانی معاشرے پر حکمفرما سیاسی نظم و ضبط کے پیش نظر اور لبنان کے صدر اور سیاسی دھڑوں کی جانب سے اس مسئلے کا مکمل ہوشیاری کے ساتھ نوٹس لئے جانے اور لبنان میں فوج کے الرٹ ہوجانے کے باعث اس بات کی امید کم ہے کہ کوئی ناخوشگوار صورتحال وجود میں آئے گی۔ ایسے ماحول میں صدر لبنان میشل عون نے اعلان کیا ہے کہ اگر آئندہ چند دنوں میں سعد حریری لبنان واپس نہیں آتے تو وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائیں گے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو سعودی عرب کو ایک بڑے خطرناک کھیل میں شکست ملے گی اور اسے عالمی اور علاقائی سطح پر ایک سنگین سیاسی اور سفارتی ضرب لگے گی۔ اور اس صورت میں علاقے میں سعودی عرب کا مداخلت پسندانہ نفرت انگیز چہرہ سب پر مزید عیاں ہوجائے گا ۔ لبنان کے صدر میشل عون نے لبنان کے اتحاد و وحدت پر تاکید کرتے ہوئے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ لبنانی رہنما کو ان کے ملک آنے دیا جائے۔ لبنانی صدر میشل عون نے ریاض میں تعینات لبنانی سفارت خانے کے انچارج ڈی افیئر ولید البخاری سے ملاقات میں کہا کہ سعد الحریری نے بیرون ملک سے اپنا استعفی پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ نا قابل قبول ہے اور انہیں فوری طور پر وطن واپس آ جانا چاہیے۔