مصر میں دہشت گردی، لبنان کے خلاف جنگ کی مخالفت کی پاداش
مشرقی مصر میں واقع صحرائے سینا کے علاقے العریش میں مسجد الروضہ پر مسلح افراد کے حملے میں تقریبا ڈھائی سو افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
مصر میں سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر کے صوبے شمالی سینا کے شہر العریش کے مضافات میں واقع علاقے الروضہ کی مسجد میں نماز جمعہ میں شریک نمازیوں پر دہشت گردوں نے بم سے حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ اندھا دھند فائرنگ بھی کردی جس میں موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈھائی سو نمازی جاں بحق اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ تاحال کسی گروہ نے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم اس علاقے میں انصاربیت المقدس نامی دہشت گرد گروہ سرگرم ہے جس نے دوہزار چودہ میں داعش کی بیعت کی تھی۔ اس گروہ نے اب اپنا نام تبدیل کرکے ولایت سینا رکھ لیا ہے اور یہ دہشت گرد گروہ شمالی سینا میں اب تک بہت سے دہشت گردانہ حملے کرچکا ہے۔ مصرکے صدر عبدالفتاح السیسی نے صوبہ شمالی سینا میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے پورے ملک میں تین روز کے عام سوگ کا اعلان کیا ہے۔
مسجدالروضہ پر حملہ مختلف پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے- اس دہشت گردانہ حملے کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے خاتمے کے بعد ہونے والا یہ پہلا دہشت گردانہ حملہ ہے- درحقیقت اس دہشت گردانہ کاروائی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ داعش کے خاتمے سے کسی بھی اعتبار سے نہ صرف قتل ودہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ شیخ الازہر احمد الخطیب کے بقول "رات کے چمگاڈروں" کے توسط سے تشدد پیدا کرنے کی قدیم ٹیکٹک جاری رہے گی-
العریش میں دہشت گردانہ کاروائی کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ مصر میں رونما ہوا ہے ۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی عرب کے ان جملہ رہنماؤں میں سے تھے کہ جنہوں نے گذشتہ دو ہفتے کے دوران صراحتا مشرق وسطی خاص طو رپر لبنان کے خلاف کسی بھی قسم کی نئی جنگ کی مخالفت کی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی اور صیہونی حکومتوں کو یہ توقع تھی کہ مصر کی حکومت ، حزب اللہ لبنان اور لبنان کے خلاف نئی مہم جوئی میں ان کا ساتھ دے گی۔ درحقیقت آل سعود اور صیہونی حکومت کی مہم جوئی کی ، حکومت مصر کی جانب سے مخالفت کی ، مصر کو اس صورت میں قیمت چکانی پڑی ہے۔ اسی بناء پر حزب اللہ لبنان نے الروضہ کی وحشیانہ کاروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس حملے کو تکفیری اور وہابی فکر کا نتیجہ قرار دیا ہے-
تیسری وجہ اس دہشت گردانہ کاروائی کی یہ ہے کہ صحرائے سینا گذشتہ برسوں کے دوران مصر کا اہم ترین علاقہ رہا ہے کہ جہاں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں- صیہونی حکومت نے اس سے قبل بہت زیادہ کوششیں انجام دیں تاکہ صحرائے سینا میں بدامنی کو، اخوان المسلمین سے منسوب کرے اور اسے اس بدامنی کا ذمہ دار قرار دے۔ اس کی وجہ بھی مصر کی حکومت اور اخوان المسلمین کے درمیان اچھے روابط کا ہونا تھا۔ اس وقت بھی اگرچہ مصر میں سیکورٹی کی صورتحال گذشتہ دوبرسوں کے دوران بہتر ہوئی ہے لیکن مصر کی حکومت کو ملکی سطح پر بدامنی سے دوچار کرنا اور اسے علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لاتعلق رکھنا بھی، الروضہ مسجد میں دہشت گردانہ کاروائی کا ایک مقصد ہوسکتا ہے۔
الروضہ میں دہشت گردانہ کاروائی کے ذریعے شاید یہ پیغام بھی دینا ہو کہ دہشت گرد گروہوں نے عراق اور شام میں پے در پے شکستیں حاصل کرنے اور شیرازہ منتشر ہونے کے بعد اب اپنی موجودگی کا جغرافیہ تبدیل کردیا ہے۔ شمالی افریقہ، ان دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں انجا دینے کے لئے مناسب جگہ ہوسکتی ہے۔ البتہ مصر کی حکومت کا ردعمل، شمالی افریقہ میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف نیا محاذ وجود میں لانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ انتقام خون شہداء سے موسوم کارروائی کہ جو عبدالفتاح السیسی کے حکم سے الروضہ کی دہشت گردانہ کاروائی کے خلاف انجام پا رہی ہے، ممکن ہے شمالی افریقہ میں دہشت گردی کے خلاف نیا محاذ کھولے جانے کا نقطہ آغاز ہو۔