دنیا کی 350 شخصیات نے یمن کے خلاف سعودی جارحیت پر کی تنقید
دنیا کی ساڑھے تین سو سے زیادہ ممتاز شخصیات، منجملہ چھ نوبل انعام یافتگان، سیاستمداروں، سفارتکاروں اور ہنرمندوں نے امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ یمن میں جنگ کی آگ مزید بھڑکنے سے روکیں اور اس کے عوض امن و امان کی برقراری کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کریں-
اخبار گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ان شخصیتوں نے ایک بیان میں ان تینوں مغربی ملکوں کے سربراہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن میں مزید قحط اور المیہ رونما ہونے کی روک تھام کے لئے فورا جنگ بندی کرانے اور ہر قسم کے محاصرے اور پابندیوں کا خاتمہ کرکے یمنی عوام کو غذائی اشیاء ، ایندھن اور طبی سہولیات فراہم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ رائے عامہ نے بارہا علاقے میں مہم جو اور توسیع پسند حکومت کی حیثیت سے سعودی عرب کو مسلسل ہتھیار فروخت کرنے کے تباہ کن اثرات اور نقصانات کے بارے میں خـبردار کیا ہے۔
امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے ایسے میں وسیع پیمانے پر خلیج فارس کے عرب ملکوں کے لئے ہتھیاروں کی فروخت کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے کہ ان ہتھیاروں نے علاقے کی سلامتی کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ سعودی عرب اور مغربی حکومتوں کے درمیان فوجی تعاون کا نتیجہ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کشیدگی اور بدامنی پھیلنے کے سوا اور کچھ نہیں نکلا ہے۔ اس طرح کی پالیسیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ عرب حکام کے لئے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی حمایتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا دائرہ اتنا وسیع ہوا ہے کہ مغربی ملکوں کے عوام بھی ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں-
اس سلسلے میں امریکہ کے سیاسی مبصر اور تجزیہ نگار "برایان ڈاؤننگ" یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی شمولیت کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں سعودی عرب کے ہاتھوں ہتیھار فروخت کرنے کا ان ملکوں کا اقدام ، عالمی سطح پر سرزنش کا باعث اور واشنگٹن، لندن اور پیرس کے انسانی حقوق کی شرمندگی کا سبب بنا ہے- ڈاؤننگ نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس تینوں ہی ملک یمن میں جاری جنگ میں ملوث ہیں اور کافی حد تک سعودی اتحاد کو ان ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ اور ان کے فروخت کئے ہوئے ہتھیاروں سے یمنی باشندوں کی جانیں جا رہی ہیں۔
آل سعود حکومت نے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہری جھنڈی دکھائے جانے کے سبب یمنی عوام کے خلاف اپنے حملے تیز کردیئے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کہ جو ڈموکریسی کی حمایت کے دعویدار ہیں سعودی عرب کے حکام کی ہاں میں ہاں ملاکر ان کے جرائم پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور عالمی سطح پر کوئی فیصلہ کرنے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اسی سبب سے سعودی عرب کے حکام کے توسط سے یمنی عوام کی بربریت میں دوگنا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔
سعودی عرب کی سرکردگی میں بعض عرب ملکوں کے اتحاد نے چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کے مظلوم عوام کو اپنی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس جارحیت کے دوران بے گناہ اور نہتے یمنی بچوں اور عورتوں کا قتل، اس ملک کی اسّی فیصد سے زائد بنیادی تنصیبات کی تباہی اور یمنی عوام کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت اس جارحیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس جارحیت کا ایک اور پہلو یمن کا ہوائی اور بحری محاصرہ ہے کہ جس کے نتیجے میں یمن کے عوام خاص طور پر بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی سرکردگی میں قائم اتحاد نے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں یمنی بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے لیے ممنوعہ ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں جن میں کلسٹر بم بھی شامل ہیں۔ یمن کی جنگ میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال اقوام متحدہ کی انتہائی بےچارگی کو ثابت کرتا ہے -
جنگ یمن کی مختلف رپورٹیں اقوام متحدہ سمیت سب کے لیے واضح طور پر آشکار کرتی ہیں کہ سعودی اتحاد نے جنگ کے زمانے میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے اور یمنی بچوں کا ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کیا جا رہا ہے۔ بھاری اور ممنوعہ ہتھیاروں سے مارے جانے والے یمنی بچوں کے اعداد و شمار اور شدید غربت میں یمنی عوام کی موجودہ زندگی، دنیا میں رائے عامہ کی قضاوت اور فیصلے کے لیے زندہ ثبوت ہے- اقوام متحدہ کا آزادی کے ساتھ کام نہ کرنا، اپنے فرائض پرعمل کرنے میں اس ادارے کی بنیادی کمزوری سمجھا جاتا ہے اور جب تک یہ رویہ جاری رہے گا عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری پوری ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔