امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی پر روس کا ردعمل
روس کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی کو دشمنانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ اسٹریٹیجی ملکوں سے مقابلے اور ان سے باہمی روابط قائم کرنے کے بجائے دنیا پر امریکی تسلط محفوظ رکھنے کے مقصد سے تیار کی گئی ہے۔
روس کی وزرات خارجہ نے امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی میں روس مخالف نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ روس اور چین طاقتور ہوسکیں۔ وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی کو اڑسٹھ صفحے میں منتشر کیا ہے - اس اسٹریٹیجی میں عالمی سطح پر امریکہ کی برتری اور اسی طرح سپر پاور کا کردار ادا کرنے کے لئے اس ملک کی فوجی طاقت و صلاحیت کو مزید مستحکم کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ یہ دستاویز روس اور چین کو ، واشنگٹن کی طاقت، اثر و رسوخ اور مفادات کے خلاف چیلنج کے طور پر دیکھتی ہے-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی دستاویز میں کوئی خاص بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ صرف ایک نئے انداز میں ان ہی دعووں کی تکرار ہے جس پر امریکیوں نے بارہا تاکید کی ہے۔اس دستاویز کا اصل موضوع امریکہ کے تسلط پسندانہ رویے اور یکطرفہ اقدامات کو قانونی حیثیت دینا ہے، البتہ اس کا محور ٹرمپ کا " امریکہ فرسٹ " کا نعرہ ہے۔
فطری طور پر روس اور چین جیسے ممالک کہ جو بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے اس سامراجی انداز فکر کی مخالفت کر رہے ہیں اس دستاویز کی رو سے امریکہ کے دشمن اور حریف شمار ہوتے ہیں۔ سیاسی ماہر فیلپ جرالدی کے بقول، امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی اس ملک کو نئے بین الاقوامی تنازعات کی سمت لے جائے گی.
ٹرمپ نے امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی کی وضاحت کرتے ہوئے صراحتا اعلان کیا ہے کہ روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکہ کی سلامتی اور توسیع و ترقی کو متزلزل کردیں۔ ان ملکوں نے اپنی فوجی توانائی میں اضافہ کیا ہے اور وہ معلومات اور ڈیٹا پر کنٹرول کے ساتھ ہی شہریوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں- ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ماسکو کے دشمنانہ رویے پر نئی دستاویز میں خاص طور پر تاکید کی گئی ہے - ٹرمپ نے روس اور چین کو اپنا حریف ملک قرار دینے کے ساتھ ہی ان دونوں ملکوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ یہ ممالک امریکی اثرات کے مقابلے میں مقاومت کر رہے ہیں۔ گویا ٹرمپ نے امریکی مفادات کی برتری کو ایک مسلمہ امر فرض کیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ ہر اس ملک کی مذمت کرتے ہیں جو اس کے مقابلے میں استقامت کرے ۔
یہی سبب ہے کہ کرملین کے ترجمان دیمیتری پسکوف نے روس کی جانب سے امریکی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی سامراجی ماہیت کی ہے۔ دیمتری پیسکوف نے نئی امریکی اسٹریٹیجی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک، امریکہ کے اس دعوے کو قبول نہیں کرتا کہ روس امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماسکو، قومی سلامتی کی نئی امریکی اسٹریٹیجی کو اس کی تسلط پسندانہ ماہیت کا آئینہ دار سمجھتا ہے۔ کریملن کے ترجمان نے کہا کہ اگرچہ امریکی اسٹریٹیجی میں ایک بھی مثبت نکتہ نہیں ہے تاہم روس، امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز قومی سلامتی سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کی موثر کوششوں کے تحت مغربی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاوس نے نئی امریکی اسٹریٹیجی میں جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے مشرق وسطی کی مشکلات کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور ان مشکلات کو ایران کی توسیع پسندی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ نئی پالیسی میں شمالی کوریا کو امریکہ کا نمبر دو دشمن قرار دیتے ہوئے امریکی قیادت میں دشمنوں سے نمنٹے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ واشنگٹن کی اعلان کردہ نئی پالیسی میں چین اور روس کو بھی ایسا ملک قرار دیا گیا ہے جو امریکہ کے سیکورٹی اور مالی مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی کی دستاویز ، امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بہتر ہونے میں روسیوں کے مزید مایوس ہونے کا سبب بنی ہے۔ روس ، واشنگٹن کے یکطرفہ رویے کے جاری رہنے اور ایک قطبی نظام کو باقی رکھنے اور چند قطبی نظام کے عملی ہونے کے تعلق سے واشنگٹن کے اقدامات سے ناراض ہے۔