Jan ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۶:۳۵ Asia/Tehran
  • 2018 میں روس کی خارجہ حکمت عملی

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 2018 کی خارجہ پالیسی میں، روس کے سرفہرست پروگراموں کا اعلان کیا ہے۔

روس کی 2018 کی خارجہ پالیسی کی اسٹریٹیجی میں مختلف مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس میں یکطرفہ خودسرانہ پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے چند جانبہ پالیسی پر تاکید، اسی طرح شمالی کوریا کے بحران کو پرامن طور پر حل کرنے، شام کے بحران میں سیاسی راہ حل کو آگے بڑھانے کی ضرورت، دہشت گردی سے مقابلے اور دہشت گرد گروہوں کے ساتھ امریکی تعاون پر نکتہ چینی، مصر کے ساتھ اسٹریٹیجک تعاون میں توسیع، یمن کے بحران کے حل کے لئے سیاسی مذاکرات پرتاکید، چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط میں فروغ اور مغربی ملکوں خاص طور پر امریکہ کی پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی جاری رہنے پر تنقید، قابل ذکر ہے۔

2018 میں روس کی خارجہ پالیسی میں پیش کئے گئے سر فہرست اہم ترین مسائل میں سے ایک یکطرفہ خود سرانہ پالیسی اپنانے پر تنقید اور چند جانبہ پالیسی اختیار کرنے پر مبنی چند قطبی نظام تشکیل دینے کی ضرورت پر تاکید ہے۔ لاوروف کے بقول چند قطبی نظام کا نظریہ، نہ صرف دس سال بلکہ بیس سال قبل پیش آیا۔ ان کے نقطہ نگاہ سے بریکس گروپ چند قطبی نظام کے مظاہر میں سے ایک ہے۔ امریکی صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے وقت سے ہم عالمی سطح پر، فرسٹ امریکہ کے نعرے کے ساتھ ، امریکہ کی یکطرفہ خودسرانہ پالیسی کے عروج پر ہونے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

روس کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی کونسل کے سربراہ ‎"فئو ڈورلو کیاف" نے کہا کہ فرسٹ امریکہ، کا نعرہ صرف نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک طرزعمل ہے جو نہ صرف روس کے خلاف بلکہ واشنگٹن کے اتحادیوں اور شرکاء کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ رویہ مشترکہ مفادات کے اصول کی نفی کرتا ہے- اسی دائرے میں امریکہ اپنے مد نظر پالیسیاں دیگر ملکوں پر مسلط کرنے کے درپے ہے اور ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں، سیاسی محرکات کے ساتھ یکطرفہ پابندیاں عائد کرنا رہی ہیں کہ جس کا نمونہ کاٹسا قانون ہے۔ اس قانون کی رو سے روس کے خلاف وسیع ترین پابندیوں پرعملدرآمد کرنا ہے کہ جس کے سبب روس کو سرمایہ کاری، تجارت اور  ٹکنالوجی کی منتقلی میں محدودیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

روس کے سیاسی ماہر "ولادیمیر زاخاووف" قانون کاٹسا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ اپنے تازہ ترین اقدامات کے ذریعے در حقیقت یورپی یونین کو کمزور کرنا اور یورپی ملکوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ روس کے خلاف امریکہ کی نئی پابندیاں ممکن ہے امریکہ کی تیل اور گیس کی کمپنیوں کو سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچائیں۔ روسی ماہر "ولادیس لاواینک" نے پیشنگوئی کی ہے کہ روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے سے ممکن ہے امریکہ کی تیل اور گیس کمپنیوں اور اس ملک کی دیگر کمپنیوں کو خاصا نقصان پہنچے۔ 

روس کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئی پابندیاں جاری رہنے کے پیش نظر ماسکو نے ایشیاء کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کو اپنے مد نظر قرار دینے کی پالیسی اپنائی ہے اور ان ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ روسیوں نے لاطینی امریکہ کی جانب بھی اپنی توجہ مبذول کی ہے اور اس علاقے کے بھی بعض ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھائے ہیں۔

دوسری جانب روس اس وقت مشرق وسطی میں اپنے اثر و نفوذ کے درپے ہے اور اسی سلسلے میں ماسکو، شام میں اپنے اڈوں کی حفاظت کرتے ہوئے علاقے کے اہم ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ مجموعی طور پر 2018 میں روس کی خارجہ پالیسی ، دنیا کے مختلف علاقوں اور بین الاقوامی سطح پر متحرک اور فعال نقطہ نگاہ کی حامل ہوگی۔ مغربی دنیا خاص طور سے واشنگٹن کے ساتھ ماسکو کے تعلقات، دو ہزار چودہ سے اوباما کے دور صدارت سے ہی سخت سرد مہری کا شکار ہیں اور روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف نئی امریکی پابندیوں نے بھی کشیدگی کی نئی لہر پیدا کر دی ہے-

 

ٹیگس