بیت المقدس، امریکی سازش اور عالم اسلام کی ذمہ داریاں
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے منگل کی شام او آئی سی کے تیرہویں بین الپارلیمانی اجلاس کے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔
آپ نے بیت المقدس کے سلسلے میں امریکہ کے حالیہ اقدام کو توہین آمیز اور حد سے تجاوز قرار دیا اور کہا کہ وہ ایسا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے اور ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی-
رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین کے دفاع کو سب کی ذمہ داری قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی مرضی اور کرم سے صیہونی حکومت کے خلاف جد وجہد کامیاب ہوگی جس طرح کہ استقامتی محاذ نے گزشتہ برسوں کی نسبت پیشرفت کی ہے-
رہبرانقلاب اسلامی نے بین الپارلیمانی اجلاس میں میانمار اور کشمیر کے مسئلے کو اٹھائے جانے اور بحرین و یمن جیسے نہایت اہم مسائل سے غفلت برتے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مغرب کے خطرناک تشہیراتی امپریالیزم کو کہ جسے زیادہ تر صیہونی چلاتے ہیں، عالم اسلام کے اہم مسائل کو نظرانداز نہیں کرنے دینا چاہئے اور سکوت کی سازش سے مسلم امۃ کے اصلی مسائل کو محو نہیں ہونے دینا چاہئے-
رہبر انقلاب اسلامی کا اشارہ مسئلہ فلسطین میں تین تاریخی واقعات کی جانب تھا یعنی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ، عوام کی لاکھوں کی تعداد میں اجتماعی ہجرت و جلا وطنی اور بڑی تعداد میں جرائم اور قتل عام، ایک بڑے تاریخی ظلم کی دستاویز اور ثبوت ہونے سے قطع نظر انسانی حقوق کے نام نہاد حامیوں، دہشت گردی و غاصبانہ قبضے کے خلاف جد و جہد کے جھوٹے دعویداروں اور عالم اسلام کو ان کی فراموش شدہ ذمہ داریوں کی یاد دلاتی ہے-
مسئلہ فلسطین ایک قدم بہ قدم پروجیکٹ ہے جو اسرائیل اور مصر کی سازش کے تحت کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کے وقت سے ہی شروع ہوا اور ساز باز کرنے والے بعض فلسطینی دھڑوں کی ساز باز سے اوسلو کانفرنس میں بھی جاری رہا- امریکہ اور اسرائیل ان برسوں میں مسئلہ فلسطین کو تھکا دینے والے مسئلے میں تبدیل کرنے، استقامت کو کمزور کرنے اور اسلامی ممالک کو داخلی مسائل اور تنازعات میں الجھائے رکھنے کی کوشش کرتے رہے- مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر سعد اللہ زراعی بیت المقدس کے بارے میں امریکہ کے حالیہ اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : آج جو ہم علاقائی و بین الاقوامی سطح پر دکھ رہے ہیں وہ صیہونی حکومت کی خواہش کے مطابق فلسطین کے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کی عجلت پسندی ہے وہ بھی ایسے عالم میں جب استقامتی محاذ نے اپنی پے در پے کامیابیوں سے عالم اسلام کے ایک بڑے حصے سے امریکہ، صیہونی حکومت اور اس کے علاقائی ایجنٹوں کو باہر نکال دیا ہے- تحریک انتفاضہ نے انیس سو اٹھتر میں کیمٹ ڈیویڈ سے شروع ہونے والی سازش کی بساط لپیٹ کر رکھ دیا ہے- اس مسلسل موجودگی اور استقامت نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کے سب سے بڑے اور اہم مسئلے کی حیثیت سے باقی رکھا اور سازشی منصوبوں سے فلسطینی کاز کو حاشیے پر ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا-
بین الاقوامی امور کے ماہر علی اصغر زرگر فلسطین کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کے بارے میں کہتے ہیں کہ بعض دستاویزات میں اسرائیل کے ذریعے ایرانی سرحدوں پر خطرات پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ یہ تمام سیناریو گزشتہ برسوں میں تل ابیب کی مرکزیت اور سعودیوں کی مالی مدد سے انجام پاتے رہے ہیں تاہم شام و عراق میں یہ سازشیں ناکام ہوچکی ہیں اور جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا : صیہونی ایک زمانے میں نیل سے فرات تک کا نعرہ لگاتے تھے لیکن اب وہ اپنے تحفظ کے لئے دیوار کھیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین بحر سے نہر تک کے علاقے پر مشتمل ملک اور تاریخ کا حامل ہے اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہے اور اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے-