ایران اور ترکی ، علاقائی مسائل اور تہران میں صلاح و مشورے
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کی شام تہران میں ترکی کے وزیرخارجہ مولود چاووش اوغلو سے ملاقات میں شام کے مسائل کے سلسلے میں ایران ، ترکی اور روس کے درمیان تعاون کے ایک اہمترین پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ موجودہ حالات میں شام کے بحران کے حل کے لئے مزید صلاح و مشورے اور تعاون کی ضرورت ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ ممالک کی خودمختاری کا تحفظ اور جغرافیائی سرحدوں میں عدم تبدیلی علاقے میں استحکام بڑھنے کا باعث ہوگی اور ایسی کوشش و اقدام کرنا چاہئے کہ علاقے کا کوئی بھی ملک اپنے پڑوسیوں کی جانب سے خطرہ محسوس نہ کرے- یہ بیانات ایسے عالم میں سامنے آئے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس سے پہلے روس کے صدر ولادیمیر پوتین سے ملاقات میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ شمالی شام میں کشیدگی جاری رہنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، امید ظاہر کی تھی کہ علاقے کے تمام ممالک شام کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کا احترام کریں گے- پوتین نے بھی شام کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوچی اجلاس کی کامیابی کو ایران، روس اور ترکی کی مشترکہ کامیابی قراردیا تھا اور تاکید کی تھی کہ شام میں کسی بھی طرح کی فوجی موجودگی کے لئے اس ملک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت ضروری ہے - ترکی کے وزیرخارجہ نے ایسے عالم میں تہران کا دورہ کیا ہے کہ یہ تبدیلیوں کا راستہ ترکی کی پالیسیوں میں خاص اہمیت کا حامل ہے-
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈیاکو حسینی شام اور علاقے کے مسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ترکی کی فوج اور کرد ملیشیا کے درمیان جنگ سے دہشتگرد گروہوں کے لئے نیا ماحول فراہم ہوسکتا ہے - ان جھڑپوں کے جاری رہنے سے پرامن راہ حل کے حصول کا امکان کمزور ہوسکتا ہے-
ہرچند مولود چاؤوش اوغلو نے تہران میں اپنے مذاکرات میں کہا ہے کہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائیاں عارضی اور صرف اس علاقے کے دہشتگردوں کے خلاف ہیں اور انقرہ ، شام کی زمین پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے باوجود یہ مدنظر رہنا چاہئے کہ شام کے حالات نہایت پیچیدہ ہیں اوران میں کافی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں- اس سلسلے میں شمالی شام میں مزید فوجی مداخلت کے لئے امریکی منصوبہ اور اس کی مداخلتیں نیز عفرین کے علاقے میں ترکی کی موجودگی اورفوجی کارروائیاں شک کے دائرے میں ہیں اور ان پر کافی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں-
سیاسی تجزیہ نگار صادق ملکی کا کہنا ہے کہ ترکی اور علاقہ ، آج سنگین اور پیچیدہ بحران کا شکار ہے - ملکوں کے ساتھ تعلقات اورمملکت داری کا میدان علطی اور ریسک کا میدان نہ تھا اور نہ ہے اور مشرق وسطی کے مخصوص جغرافیا میں بحران کا عامل نہیں بننا چاہئے- جب بحران میں داخل ہونے کا اندازہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے-
آج انقرہ پورے فخر سے داعش کے خلاف جنگ ، آستانہ مذاکرات میں یکجہتی اور ایران، ترکی اور روس کے درمیان سہ فریقی سوچی اجلاس میں اپنے مثبت کردار پر بات کررہا ہے- ایران اور ترکی نے کوشش کی ہے کہ خطے میں جاری بحران سے قطع نظر اپنے اس تعاون کو علاقے میں جاری بحران سے محفوظ رکھیں اور مضبوط بنائیں - واضح ہے کہ علاقے میں امن و ثبات کے فوائد نے علاقے کے ملکوں کے درمیان صلاح و مشورے اور یکجہتی کو ضروری بنا دیا ہے-