Mar ۰۵, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۷ Asia/Tehran
  • فرانسیسی وزیر خارجہ کا دورہ تہران

فرانس کے وزیر خارجہ جان ایو لودریان آج صبح ایران کے دورے پر تہران پہنچے ہیں۔

تہران میں فرانس کے وزیر خارجہ کے مذاکرات کا محور، علاقائی و بین الاقوامی مسائل اور سیاسی و اقتصادی تعاون کے بارے میں تبادلۂ خیال اور فرانس کے صدر امانوئل میکرون کے دورہ تہران کے انتظامات فراہم کرنا ہے۔ 

اس کے باوجود فرانس کے وزیر خارجہ نے اپنے دورۂ تہران کے موقع پر کہا ہے کہ ایران کا میزائل پروگرام فرانس اور ان کے حامی ملکوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اتوار کو تہران میں نامہ نگاروں کے اجتماع میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مغربی فریق کو چاہئے کہ وہ ایران کے میزائلی صلاحیت کے بارے میں اپنے موقف کو واضح کریں کہا کہ اگر یورپی فریق ایران کی دفاعی توانائیوں کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو کیا انہوں نےعلاقے کے ملکوں کو جو اپنے اربوں ڈالروں کے ہتھیار فروخت کئے ہیں اور اس علاقے کو اسلحہ و گولہ بارود کے گوداموں میں تبدیل کردیا ہے، اس کے بارے میں بھی وہ موقف اپناتے ہیں؟ 

لودریان کا یہ اظہار خیال، فرانس کے حکام کے ماضی کے مواقف کے پیش نظر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 

 بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور یونیورسٹی میں جیوپولیٹکس کے پروفیسر عبدالرضا فرجی زاد کا خیال ہے کہ فرانس، خلیج فارس کے عرب ملکوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہے کیوں کہ فرانس کی ایک اہم آمدنی کا ذریعہ سعودی عرب، قطر اور بحرین کو ہتھیاروں کی فروخت ہے۔

جواد ظریف نے کل اپنے بیان میں ریڈ لائن کو واضح کردیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یورپی ممالک نے ان مذاکرات کو امریکہ کے مطالبات اور دعووں کا جواب دیئے جانے کی کوشش میں تبدیل کرنا چاہا تو یہ ایک ناقابل قبول مسئلہ اور ایک سیاسی و تشہیراتی اقدام ہوگا۔

فرانس اگرچہ مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کی حمایت کرتا ہے لیکن امریکی پروپگنڈوں کے زیر اثر وہ بھی ایران کی دفاعی اور میزائیلی صلاحیتوں کو علاقے میں تشویش کا باعث قراردیتا ہے۔ البتہ فرانسیسی حکمرانوں نے کوشش کی ہے کہ اپنی پالیسیوں کو آزاد اور مستقل ظاہر کریں لیکن واشنگٹن کے ساتھ پیرس کی ہم آہنگی اور یکسوئی اس نظریئے کے برخلاف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایران اپنے مدنظر خطرات اور دھمکیوں کے تناسب سے اپنی دفاعی توانائیوں کو بھی بڑھا رہاہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ دنوں قبل ملک کے ممتاز علمی صلاحیتوں اور استعداد کے مالک نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یورپی ملکوں کو چاہئے کہ وہ امریکی حکومت کے اقدامات منجملہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے سامنے ڈٹ جائیں اور ایران کی دفاعی طاقت اور علاقے میں ایران کی موجودگی جیسے مسائل میں امریکیوں کے ہم صدا و ہم نوا بننے سے پرہیز کریں کیوں کہ ہمیں ہرگز یہ بات تسلیم نہیں ہے کہ یورپی ممالک امریکہ کی منھ زوریوں سے ہم آہنگ ہوں۔

اس قسم کے رویوں کے تجربے سے واضح ہوتا ہے کہ جو بات بھی ایران پر، دھمکی کی زبان میں یا طاقت کے زور پر مسلط کی جائے گی اس کا نتیجہ شکست و ناکامی ہی ہوگا۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے اتوار کی شام کو فرانس کے صدر امانوئل میکرون کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں کہا کہ موجودہ حالات میں جو اہم بات ہے یہ ہے کہ یورپی یونین، امریکہ کو ایٹمی معاہدے کی مکمل پاسداری کی ترغیب دلائے۔

توقع کی جارہی ہے کہ تہران کے مذاکرات سے یہ واضح ہوجائےگا کہ فرانس ایران کے ساتھ اپنےتعلقات میں شفاف اور منطقی موقف رکھتا ہے اور وہ ایران کے خلاف ٹرمپ اور خلیج فارس کے علاقے کے بعض ملکوں کے غلط رویوں اور پروپگنڈوں سے متاثر نہیں ہوگا۔ 

اس کے ساتھ ہی امریکہ کے  'معروف امریکی تجزیہ کار گیرتھ پورٹر کے بقول ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا یورپی ممالک، واشنگٹن کے مقابلے میں سر تعظیم خم کریں گے یا نہیں۔    

ٹیگس