بحرین کے امن پسند روحانی پیشوا کے گھر کے محاصرے کو تین سو دن مکمل
بحرین کے ممتار عالم دین شیخ عسیی قاسم کے گھر کے محاصرے کو ایسے عالم میں تین سو دن مکمل ہوئے ہیں کہ وہ عوام سے پرامن احتجاج پر زور دے رہے ہیں۔
بحرین کے عوام نے چودہ فروری 2011 سے آل خلیفہ حکومت کے خلاف اپنے قیام کا آغاز کیا تھا ۔ آل خلیفہ حکومت نے نہ صرف عوامی تحریک کو سرکوب کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے بلکہ اس نے بحرین کے معنوی و سیاسی رہنماؤں کی تحقیر اور بدسلوکی کو بھی اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے تاکہ ان رہنماؤں کی قیادت میں عوامی احتجاج آگے نہ بڑھ سکے۔ بحرین کے ممتاز عالم دین شیخ عسیی قاسم بھی ان ہی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
آل خلیفہ حکومت نے پہلے جون 2016 میں شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرلی جبکہ آپ بحرین میں شہریت کے قوانین کی تدوین کرنے والوں میں سے تھے۔ اور 1971 کے اوائل میں وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قانون ساز اسمبلی میں شیخ عیسی قاسم کا بہت بڑا اثرو رسوخ تھا، جس کے باعث انہوں نے خلاف اسلام قوانین کو روکا اور اسلام کے خلاف سازش کو ناکام بنایا-
آل خلیفہ حکومت نے 23 مئی 2017 کو بھی شیخ عیسی قاسم کو الدراز کے علاقے میں ان کے گھر میں نظربند کردیا ۔ بحرینی حکومت نے چودہ مارچ دو ہزار سترہ کو بھی آیت اللہ شیخ عیسی قاسم پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ بحرین کی عدالت شیخ عیسی قاسم کے دفتر میں خمس و زکات کی صورت میں موجود وجوہات شرعیہ جمع کئے جانے کو منی لانڈرنگ کا نام دے رہی ہے۔ یہ اقدام دین اور دین کے اصولوں سے آل خلیفہ کی دشمنی کو ثابت کرتا ہے۔ دین اور مذہبی شعائر کے ساتھ آل خلیفہ کی دشمنی قطعی طور پر ایک خطرناک کھیل ہے کہ جس کا آغاز اس حکومت نے شیخ عیسی قاسم کے خلاف فیصلہ صادر کرنے کے ساتھ کردیا ہے لیکن اس کھیل کا اختتام حکومت بحرین کے اختیار میں نہیں ہوگا۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ شیخ عیسی قاسم بحرین کے ایک امن پسند رہنما اور پیشوا ہیں کیوں کہ انہوں نے آل خلیفہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے دوران ، حکومت اور عوام کو مذاکرات اور بات چیت کی دعوت دی اور بحرین میں اقتدار کے ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت پر تاکید کی۔ حتی اس وقت بھی کہ جب بحرین کی عدالت نے ستمبر 2011 میں شیخ عیسی قاسم کی توہین کی تھی تو اس وقت بھی شیخ عیسی قاسم نے عوام سے مظاہرے کی اپیل نہیں کی بلکہ یہ خود بحرینی عوام تھے جنہوں نے ایک ارزشمند قدم اٹھاتے ہوئے پورے بحرین میں نماز جمعہ قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ صرف شیخ عیسی قاسم کی ہی امامت میں نماز جمعہ قائم ہوگی۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہےکہ وہ چیز جو شیخ عیسی قاسم کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے تشدد میں اضافے کا باعث بنی وہ عوام کے درمیان آپ کی حد سے زیادہ مقبولیت ہے۔
آل خلیفہ حکومت ، شیخ عیسی قاسم کو گھر میں نظر بند کرنے کے ذریعے ایک طرف شیخ عیسی سے بحرینی عوام کا رابطہ منقطع کرنے کے درپے ہے تو دوسری جانب ان کے لئے محدودیتیں اور موانع پیدا کرکے بحرینی عوام کی تحریک میں اس ممتاز عالم دین کے موثر کردار میں مانع بننا چاہتی ہے۔ اس کے باوجود حقیقت تو یہ ہے کہ آل خلیفہ حکومت کو اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے کیوں کہ بحرین کے عوام نے ایک طرف مئی 2016 سے کہ جب سے آپ پر نظر بندی مسلط کی گئی ہے، الدراز میں آپ کے گھر کے اطراف میں روزانہ اور ہفتہ وار مظاہروں کا، انعقاد کیا ہے اور دوسری جانب شیخ عسیی قاسم کے خلاف محدودیتیں اور پابندیاں مسلط کرنے نیز ان کو علاج معالجے کی اجازت نہ دینے کے سبب عوامی احتجاج میں مزید شدت آگئی۔ آخرکار آل خلیفہ حکومت نے مجبور ہوکر، گذشتہ ایک سال کے دوران دوبار شیخ عیسی قاسم کو گھر سے نکلنے اور علاج معالجے اور آپریشن انجام پانے کی اجازت دی۔
بحرین میں چودہ فروری دوہزار گیارہ سے حکومت آل خلیفہ کے خلاف عوام کی طرف سے مظاہرے ہورہے ہیں۔ بحرین کے عوام ملک میں آزادی اورعدالت وانصاف کی برقراری اور امتیازی برتاؤ کا خاتمہ اور منتخب اور قانونی حکومت کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن لوگوں کے ان مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے آل خلیفہ حکومت، سعودی عرب سمیت بعض عرب ممالک کے ساتھ مل کر عوام کو سرکوب کر رہی ہے۔