امریکہ ، فرانس اور برطانیہ یمن کے خلاف سعودی جرائم میں شریک ہیں: ایران
اقوام متحدہ میں ایران کے مندوب نے ایران کی جانب سے یمن میں ہتھیار بھیجنے کے سعودی الزامات کی نئی لہر کا مقصد یمن میں سعودی اتحاد کے جرائم کی طرف سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانا قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے جمعرات کی شب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام ایک خط میں ریاض پر انصاراللہ یمن کے میزائلی حملے میں ایران کے کردار پر مبنی سعودی الزامات کو بے بنیاد قراردیا اور کہا کہ سلامتی کونسل کے تین مستقل رکن کہ جو ایران کے خلاف سعودی عرب کے الزامات کی حمایت کررہے ہیں، ریاض کو اربوں ڈالر کے مہلک ہتھیار فروخت کررہے ہیں اور یہ ہتھیار یمن کے عام شہریوں کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں-
اس سلسلے میں فرانس کے صدر امانول ماکرون کی پارٹی کے رکن سباستین نادوت نے ابھی کچھ ہی دن پہلے روئٹرنیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ درپیش ہے کہ سعودی عرب کو بیچے گئے ہتھیار، یمن کے عام شہریوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں-
امریکہ میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی سیاسی و تشہیراتی ڈرامے بازی کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ ، فرانس اور برطانیہ نے سعودی پیٹروڈالر حاصل کرنے کے لئے ریاض پر یمن کی تحریک انصاراللہ کے میزائلی حملوں میں ایران کا کردار ہونے کا الزام لگایا- یمن کی تحریک انصاراللہ نے مارچ دوہزار اٹھارہ کے آخری ہفتوں میں سعودی عرب کے مختلف علاقوں پر میزائل فائر کئے ہیں-
یمن میں سعودی عرب کی جنگ کہ جو گذشتہ چار برسوں سے جاری ہے ، مختلف پہلؤوں سے ریاض کے لئے کافی مہنگی پڑرہی ہے تاہم عملی طور پر ریاض کو اس جنگ سے اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوا ہے- برطانوی جریدے ٹائمز نے ابھی حال ہی میں لکھا ہے کہ سعودی عرب ، یمن کے خلاف جنگ کے لئے روزانہ دوسو ملین ڈالرخرچ کررہا ہے یعنی گذشتہ تین برسوں میں وہ دوسوسولہ ارب ڈالرخرچ کرچکا ہے-
جنگ یمن میں سعودی اتحاد کی ناکامی اس وقت پوری طرح کھل کر سامنے آگئی کہ جب یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ نے اس ملک کے مکمل محاصرے کے باوجود ریاض سمیت سعودی عرب میں اپنے اسٹریٹیجک اہداف کومیزائلوں سے نشانہ بنا کر محمد بن سلمان اور ریاض کے اسلحہ جاتی شرکاء کو چیلنج کردیا ہے-
یمن میں سعودی حکومت کی طرف سے بھڑکائی جانے والی جنگ میں امریکہ برطانیہ اور فرانس کے اسلحہ جاتی حمایتی کردار کا مقصد صرف پیسہ اور اسلحےفروخت کرنا ہے- اس بیچ یمن میں سعودی حکومت کے جرائم کہ روز بروز جس کے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں، انسانی حقوق کے نام نہاد دعویداروں کے لئے باعث تشویش نہیں ہیں اور وہ خود یمن میں سعودی عرب کے جرائم میں شریک ہیں لیکن ایران، ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے بحران یمن کے سیاسی حل کی کوشش کے ساتھ ہی رائے عامہ کے لئے یمن میں سعودی اتحاد کے جرائم سے پردہ اٹھاتا رہا ہے- تہران کے اسی تعمیری رویے کے باعث امریکہ، برطانیہ اور فرانس سعودی حکومت کے ساتھ مل کر یمن میں سعودی اتحاد کے جرائم اور دنیا کے بدترین انسانی المیے کی جانب سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے ایران پر بے بنیاد الزامات عائد کررہے ہیں -
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے جمعرات کو اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ یمن میں ایران کی جانب سے ہتھیار بھیجے جانے کا بے بنیاد دعوی دہرائے جانے سے یمن میں سعودی عرب کی جنگ سے متعلق عالمی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے ایران کے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کہا کہ سعودی عرب کو ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک یمن کے عوام پر سعودی جنگی طیاروں کے حملوں کو اپنا دفاع سمجھتے ہیں کیونکہ جنگ یمن سے سعودی عرب کو ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک کے اقتصاد کو بھاری فائدہ پہنچ رہا ہے-
جنگ یمن میں سعودی عرب کی حمایت صرف اسے ممنوعہ اور مہلک ہتھیاروں کی فروخت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مختلف مرحلوں پرمشتمل ہے- وہ ملک جو آج کل محمد بن سلمان کا میزبان رہا ہے جنگ یمن میں سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے سے بڑھ کر کردار ادا کررہا ہے- امریکہ، سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے کے ساتھ ہی جنگ یمن میں اہداف کی نشاندہی اورسعودی جنگی طیاروں کو ایندھن فراہم کرتا ہے- اس سلسلے میں ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے جمعرات کو جنگ یمن میں امریکی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، یمن میں دنیا کی سب سے بڑی انسانی تباہی میں آل سعود کے جرائم کا سب سے بڑا شریک ہے-